سپر فلڈ، 6پوائنٹ حساس

سپر فلڈ، 6پوائنٹ حساس
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
کراچی چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا ہے کہ دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کا دبائو بدستور موجود ہے، امکان ہے 4سے 5ستمبر تک گدو اور سکھر بیراج کی جانب پانی کا بڑا ریلا پہنچے گا ، جہاں یہ کم سے کم 7اور زیادہ سے زیادہ 11لاکھ کیوسک تک ہو سکتا ہے جبکہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہمیں سپر فلڈ کی تیاری کرنی ہے، 9لاکھ کیوسک آئے یا 10لاکھ کیوسک کچے کا علاقہ ڈوب جائیگا ، فوج سے رابطے میں ہیں ، گدو اور سکھر بیراج کو بچانا ہے، 6پوائنٹ حساس ہیں، سندھ انتظامیہ نے پورا کچے خالی کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ میڈیا تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ انسانی جان و مویشیوں کا تحفظ پہلی، بیراجوں کی حفاظت دوسری اور بچاؤ بندوں کو مضبوط رکھنا تیسری ترجیح ہے ، 5سے 9 لاکھ کیوسک تک سپر فلڈ سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی ہے ، رات تریموں پر پانی کی صورتحال واضح ہو جائیگی۔ وہ سکھر بیراج کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات کر رہے تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ رات کسی بھی وقت پانی کا بہائو پیک پر ہوگا ، ہمیں اندازہ لگانا ہے کہ کتنا پانی گزرے گا، سارے سیلابی ریلے پنجند پر آکر جمع ہونگے، انڈس او رپنجند سے پانی سندھ آتا ہے، کوہ سلیمان کی بارشیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ متوقع 9لاکھ کیوسک تک پانی آنے کی صورت میں 2لاکھ سے زائد گھرانوں کے متاثر ہونے کے خدشات ہیں ، 948ریلیف کیمپس قائم کررہے ہیں، قادر پور اور شینک بندوں کی خصوصی نگرانی مزید سخت کردی ہے ۔ پاکستان نیوی، آرمی مدد کررہی ہے ، ہر قسم کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہاکہ ہمارے پاس192کے قریب کشتیاں ہیں، نجی کشتیوں کے ذریعے بھی ریسکیو کرینگے، پاکستان نیوی کی ریسکیو بوٹس کی ٹیمیں لیفٹ و رائٹ بینک پر پہنچی ہوئی ہیں ۔ رائٹ و لیفٹ بینک پر عملہ 24گھنٹے نگرانی کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ممکنہ سیلاب کے انتظامات اور صورتحال کا جائزہ لینے اتوار کو گدو بیراج پہنچے تھے۔ اس موقع پر سینئر صوبائی وزیر اطلاعات و ماس ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن، وزیر آبپاشی جام خان شورو و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ سینئر وزیر و وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ، پی ڈی ایم اے، پاک بحریہ اور پاک فوج انخلا اور ریلیف کے انتظامات میں مصروف ہیں جبکہ کچے کے علاقوں میں بروقت انخلاء کے لیے 192کشتیاں تعینات کی جا چکی ہیں۔ سندھ حکومت کے ترجمان مصطفیٰ عبداللہ بلوچ نے بھی کہا ہے کہ سیلاب 4یا 5ستمبر تک سندھ میں داخل ہوگا۔ سندھ سیکرٹریٹ میں قائم پراونشل رین اینڈ فلڈ ایمرجنسی مانیٹرنگ سیل میں 24گھنٹے دریائوں میں پانی کی صورتحال کی مانیٹرنگ جاری ہے۔ سندھ کے وزیر بحالی مخدوم محبوب زمان اور پی ڈی ایم اے کے ڈی جی سلمان شاہ نے بتایا کہ سپر فلڈ کی صورت میں 15اضلاع، 167یوسیز، 1651دیہات متاثر ہونے کے خدشات ہیں، ان اضلاع کی مجموعی آبادی 16لاکھ 38ہزار 886ہے جو کہ 2لاکھ 73ہزار 148خاندانوں پر مشتمل ہیں۔ 948ریلیف کیمپس قائم کر رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں اور اچانک سیلاب کے نتیجے میں ملک بھر میں 850افراد جاں بحق جبکہ 1150سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اتوار کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے دوران 6لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا جبکہ ہزاروں مویشیوں کو بھی بچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مون سون کا آخری اسپیل ستمبر کے پہلے 10دن میں متوقع ہے جس کے دوران مشرقی پنجاب، آزاد کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے ، سندھ حکومت پلان کیلئے منصوبے پر عمل داری یقینی بنا لے تو یقینا سندھ کے لوگ آنے والے سیلاب سے بچ جائیں گے ۔
سندھ میں 2022ء کو آنے والے سیلاب سے ملنے والا درد ابھی ختم نہیں ہوا۔ پچھلے چند سال میں سیلاب سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ہزاروں جانیں جا چکی ہیں ، لوگوں کو حکومتوں سے شکایات کا شرح میں اضافہ ہے ، اس اضافہ کو بنیادی وجہ حکومت کی طرف سے عوامی مشکلات کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گی ، آج بھی وزیر اعظم اور احتسابی اداروں کی کرسی کے نیچے اربوں روپے کی لوٹ مار جاری ہے، سالوں پہلے بھی چینی ، آٹا جیسے بحران پیدا کئے جاتے رہے ہیں اور آج بھی قوم انہی بحران کا شکار ہے، آج موسمیات کی تبدیلی بڑا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے، سیلابی صورتحال نے حکومت کیلئے نیا امتحان پیدا کر دیا ہے، اس امتحان کے پیچھے بھی حکومتی نا اہلی شامل ہے، راوی، نالوں پر سوسائٹیاں بنانے میں بھی حکومتی ایوان اور سرکاری ادارے شامل ہیں۔ ملک میں سخت عملداری کی ضرورت ہے، سرکاری پروٹوکول کے غلط استعمال کو روکنا ہو گا، چند سو لوگ ملکی معیشت پر بوجھ ہیں، جو پورے معاشی سرکل پر قابض ہیں، اس قبضے کو ختم کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔





