ایس سی او گیم چینجر

ایس سی او گیم چینجر
تحریر: سیدہ عنبرین
کالم : صورتحال
بین الاقوامی فورسز پر اجلاس ہوتے رہتے ہیں، ان میں کیے گئے فیصلوں پر کبھی عمل ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ لیکن شنگھائی تنظیم کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں پر عمل ہو گیا تو حقیقی معنوں میں ایشیاء کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ خطہ ہمیشہ کیلئے امریکہ اور یورپ کی غلامی سے آزاد ہو جائیگا، اس حقیقی آزادی کا سہرا چین اور چینی قیادت کے سر ہوگا۔
پرانا ورلڈ آرڈر ٹوٹتا نظر آتا ہے، جس میں قوموں کو محکوم بنانا اور ان کے وسائل پر قبضہ جمانا خفیہ ایجنڈا تھا، ایس سی او میں ایک نیا ورلڈ آرڈر بنتا نظر آرہا ہے، جس میں سب کچھ مثبت ہے، منفی کچھ بھی نہیں، لیکن بڑی طاقتوں پر منحصر ہوگا کہ وہ حقیقت کا روپ دینے میں کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ تنظیم کے ہر ممبر کی اپنی اہمیت ہے لیکن امریکہ اور یورپ کے رویے نے اس کی اہمیت دو چند کر دی ہے، بیشتر ممبر ملک اس کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں، اس حوالے سے بھارتی قیادت جو بھی فیصلہ کریگی اس کے پیش نظر اس فورم اور اس کے ایجنڈے کے بارے میں حتمی طور پر پیش گوئی کی جاسکے گی کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ بھارت نے امریکہ سے دوری کا فیصلہ کر لیا تو کام آسان ہو جائیگا، لیکن اگر عین وقت پر چانکیہ ڈیلومیسی سے کام لیا گیا تو اس کا نقصان بھارت کو ہوگا، یہ تنظیم اپنا سفر جاری رکھے گی اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی۔
ایس سی او کی کامیابی میں ایک شخصیت کا اہم کردار ہے، جس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی نے تنظیم کے بنیادی ممبران کا کام قدرے آسان کر دیا، کہا جاسکتا ہے ٹرمپ کے ڈسے ہوئے ممالک نے ٹرمپ پالیسیوں کے سبب اس تنظیم میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں مجھے والدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یاد شدت سے آرہی ہے۔ ٹرمپ کے لڑکپن کے زمانے میں انہوں نے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ڈونلڈ کی بہت فکر رہتی ہے۔ اس کی وجہ ڈونلڈ کا زندگی کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ انہوں نے فکر مند لہجے میں کہا میں سوچتی ہوں اگر ڈونلڈ کو زندگی میں کوئی اہم ذمہ داری مل گئی تو جانے یہ اس کا کیا حشر کرے۔ ماں سے بہتر اولاد کو کوئی نہیں جانتا۔
والدہ ٹرمپ کے خدشات درست ثابت ہوئے، ٹرمپ نے اپنے غیر سنجیدہ رویے سے دنیا کے امن کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس کے بارے میں اب یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ وہ رات سونے سے پہلے کوئی فیصلہ کرے تو ضروری نہیں صبح تک وہ فیصلہ برقرار رہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں پر ٹیرف عائد کرنے کے معاملے میں اس نے ان خدشات کو درست ثابت کر دیا جو اس کی ذات سے منسوب کیے جاتے رہے ہیں۔ اس موقع پر چینی صدر کی خوشی دیدنی تھی، چین اور روس نے امریکہ کے مقابل اکھاڑے میں مودی کو اتار ا ہے ، جس نے کانفرنس میں شرکت سے پہلے امریکی صدر کی طرف سے چار مرتبہ کی جانے والی کال اٹینڈ نہ کر کے امریکہ کو پیغام بھیجا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ماضی کے انتہائی قریبی دوست ایلون مسک نے جو کہا وہی سچ ہے۔
ایلون مسک نے کہا تھا دنیا امریکہ کے بغیر بھی چل سکتی ہے، اب چین اس خیال کو حقیقت میں بدلنے جارہاہے، چینی صدر نے بھارتی وزیر اعظم سے کہا کہ چین اور بھارت مہذب معاشرے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ امریکہ جیسی غیر مہذب قیادت کے ساتھ چلنا قدرے مشکل ہے۔ بھارت اور بھارتی قیادت کتنی مہذب ہے یہ تو کوئی پاکستان سے پوچھے یا کشمیریوں سے پوچھے، لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بھارتی منفی رویے کے پیچھے امریکی اور یہودی تھپکی ہمیشہ موجود نظر آتی تھی۔ چین کی طرف سے بھارت کو جو دوسرا اہم پیغام دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بارڈر کے معاملے پر جو تلخی موجود ہے اسے باہمی گفتگو سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے دھتکارے جانے کے بعد بھارتی وزیر اعظم چین کی طرف سے ملنے والی اہمیت اور محبت پر بہت خوش نظر آئے۔ لیکن انہوں نے چین کی طرف سے اس کانفرنس کے اختتام پر ہونے والی عظیم الشان فوجی پریڈ میں غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید یہ ان کی دکھتی رگ تھی، اس پریڈ میں چینی ساختہ جدید اسلحے کی نمائش بھی شامل ہے، وہی اسلحہ جیسے استعمال کر کے پاکستان ایئر فورس نے بھارتی عزائم خاک میں ملا دئیے اور اسے دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایشیاء کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ دنیا کی چالیس فیصد آبادی اس خطے میں ہے جس کے مختلف ملک ایس سی او کے ممبر ہیں۔ اگر سب نے ڈالر سے تعلق توڑنے اور کسی متبادل کرنسی میں کاروبار کرنے کے فیصلے اور متبادل کرنسی کیلئے کوئی ڈیڈ لائن مقرر کر لی تو اس فیصلے کے اعلان سے ڈالر کو کمر توڑ جھٹکا لگے گا۔ گمان ہے ڈالر کی قیمت فوری طور پر بیس فیصد گر سکتی ہے۔ چین کی اقتصادی طاقت کو محدود کرنے کیلئے ’’ کوارڈ‘‘ قائم ہوا تھا لیکن اب یوں لگتا ہے جیسے ایس سی او ’’ کوارڈ ‘‘ کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہو جائیگی۔ بھارت، امریکہ چپقلش کے نتیجے میں امریکی صدر نے کوارڈ اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے بھارت کا دورہ کرنا تھا، لیکن اب امریکی صدر نے بھارت نہ جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ تو دیگر مصروفیات بتائی ہیں لیکن درحقیقت بڑی وجہ دونوں ملکوں میں پیدا ہونے والے شدید اختلافات ہیں۔ ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا تو دونوں سربراہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آئے اور ٹرمپ انہیں مودی مائی فرینڈ کہہ کر بے تکلفی سے مخاطب کرتے تو مودی بھی خوشی سے پھولے نہ سماتے، ٹرمپ کی خوشنودی کیلئے بھارت میں ’’ نمستے ٹرمپ‘‘ ریلیاں محبت کی جو داستان سنا رہی تھیں، آج وہ محبت دونوں دلوں سے رفو چکر ہو چکی ہے، دونوں لیڈر آج ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں لگتے۔
بھارت کے چینی کیمپ میں آنے سے ایشیاء میں امن کوششوں کو نئی طاقت ملے گی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کم ہو سکتے ہیں اور باہمی تنازعات نسبتاً خوش اسلوبی سے حل ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
روس کی طرف سے ایک نئی تجویز بھی دی گئی ہے، جو بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بھارت کو ہزاروں میل دور بیٹھے امریکہ کے مفادات کی نگرانی کی بجائے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنی اقتصادیات کو مزید ترقی دینے کا ایک سنہری موقع مل رہا ہے، دیکھنا ہے وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتا ہے یا اسے کھو دیتا ہے، بھارت کا رویہ کچھ بھی ہو ایس سی او گیم چینجر ثابت ہوگا۔





