ColumnQadir Khan

پاکستان کے خلاف افغانستان کی غیر علانیہ جنگ ؟

پاکستان کے خلاف افغانستان کی غیر علانیہ جنگ ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور نازک معاملہ رہے ہیں، جہاں تاریخ، جغرافیہ اور نظریاتی رشتے مل کر ایک ایسا جال بناتے ہیں جو آسانی سے سلجھتا نظر نہیں آتا۔ آج کے دور میں یہ تعلقات ایک ایسے بحران کا شکار ہیں جہاں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سائے، باہمی عدم اعتماد اور سرحدی کشیدگی نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں کابل میں اپنے افغان ہم منصب امیر خان متقی سے ملاقات کے دوران کھل کر یہ الزام عائد کیا کہ افغان عبوری حکومت نے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے سیکڑوں حامیوں کو اپنے سرکاری ڈھانچے میں جگہ دے رکھی ہے۔ یہ الزام کوئی نئی بات نہیں، مگر اس کی شدت اور براہ راست بیان نے تعلقات کو اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ڈار صاحب نے واضح الفاظ میں کہا کہ یا تو افغان حکومت ان عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، یا انہیں پاکستان کے حوالے کر دے۔
یہ خدشات محض پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے الزامات نہیں ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹس میں بھی ان کی واضح تصدیق موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے تقریباً چھ ہزار سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو اب بھی سرگرم ہیں، اور یہ افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے۔ یہ رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ افغان عبوری طالبان کی حکومت میں کئی بااثر شخصیات نے نہ صرف ٹی ٹی پی کو مبینہ مالی امداد فراہم کی ہے بلکہ انہیں رہائش، سفری دستاویزات اور اسلحہ کے لائسنس بھی جاری کیے ہیں تاکہ وہ اپنی کارروائیاں بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے خاندان کو مبینہ طور پر ماہانہ لاکھوں روپے کی امداد فراہم کی جاتی رہی ہے، جو اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ یہ رشتہ محض عملی نہیں بلکہ گہرا نظریاتی ہے۔ یہ مالی اور لاجسٹک سپورٹ ایک ایسے وقت میں دی جا رہی ہے جب پاکستان اپنے اندرونی سلامتی کے بحران سے دوچار ہے، اور یہ سپورٹ دراصل پاکستان کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹس، جو 2024اور 2025کی ابتدائی مدت کو کور کرتی ہیں، یہ بھی انکشاف کرتی ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان کے مختلف صوبوں جیسے خوست، ننگرہار اور کنڑ میں نئے تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں، جہاں سے وہ پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ یہ ایک انسانی بحران بھی ہے، کیونکہ ان کیمپوں میں بھرتی ہونے والے نوجوان اکثر غربت اور بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں، اور انہیں نظریاتی طور پر گمراہ کیا جاتا ہے۔
افغان عبوری حکومت نے پاکستان کے ان خدشات کے جواب میں یہ مقف اختیار کیا ہے کہ اس نے سرحدی سلامتی کو مضبوط کرنے کے لیے تقریباً سات سو نئی سرحدی چوکیاں قائم کی ہیں تاکہ غیر قانونی دراندازی کو روکا جا سکے۔ قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ان چوکیوں کو افغان عزم کا ثبوت قرار دیا، اور پاکستان کی طرف سے بھی بظاہر ان کوششوں کو سراہا گیا۔ مگر زمینی حقائق کو دیکھیں تو یہ دعویٰ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان نے اپنی جانب سے 2600کلومیٹر سے زائد طویل سرحد پر تقریباً ایک ہزار قلعے اور 1200سے زائد چوکیاں قائم کی ہیں، دو تہوں والی باڑ لگائی جا چکی ہے جو 90 فیصد سے زائد مکمل ہے، اور جدید نگرانی کے آلات جیسے کیمرے اور سینسر نصب کیے گئے ہیں۔ یہ باڑ 2017ء سے شروع ہونے والا ایک بڑا پروجیکٹ ہے جو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بھی مکمل کیا گیا ہے، اور اس کا مقصد بالکل وہی ہے جو افغان عبوری حکومت کا سرحد پار دراندازی کو روکنا دعویٰ ہے۔ ایسے میں افغانستان کی سات سو چوکیوں کی عملی افادیت پر سوال اٹھنا لازمی ہے، خاص طور پر جب کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔ یہ چوکیاں اکثر محدود وسائل اور تربیت کی کمی کا شکار ہوتی ہیں، اور افغان حکومت کو شدید معاشی بحران اور بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انہیں مثر طور پر چلانا ممکن نہیں لگتا۔ مزید برآں، حال ہی میں سرحدی جھڑپوں کے واقعات، جیسے 2025ء کے اگست میں شاہی کوٹ اور سونائی ڈارہ میں ہونے والی فائرنگ جس میں پانچ سے زائد پاکستانی فوجی شہید ہوئے، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ چوکیاں محض دکھاوے کا کام دے رہی ہیں نہ کہ حقیقی روک تھام کا۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال انتہائی ناقابل برداشت ہے، کیونکہ 2024ء اور 2025ء کے اعداد و شمار ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ 2024ء کے دسمبر میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر 182حملے کیے، جبکہ 2025ء کے جنوری میں ہی 110حملے ریکارڈ ہوئے۔ ان حملوں میں سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں، جن میں فوجی جوانوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔ گلوبل ٹیررزم انڈیکس 2025ء کے مطابق، پاکستان میں دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، اور کالعدم ٹی ٹی پی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ حملے نہ صرف داخلی سلامتی کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی نقصان بھی پیدا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگست 2025ء میں بلوچستان میں سرحد پار سے دراندازی کی کوشش کرنے والے 33شدت پسند ہلاک ہوئے، جن میں سے 53افغان شہری تھے۔ یہ واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی براہ راست افغان سرزمین سے برآمد ہو رہی ہے۔ پاکستان نے اس کا جواب عسکری کارروائیوں سے دیا ہے، جیسے خوست اور ننگرہار میں ڈرون حملے جن میں ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانے تباہ کیے گئے۔ مگر ان کارروائیوں نے سفارتی تنا کو مزید بڑھا دیا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغان حکومت کی دعویٰ کردہ سات سو چوکیاں خود کئی شکوک و شبہات کی زد میں ہیں۔ پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں محدود وسائل کے ساتھ اتنی چوکیوں کو فعال رکھنا ممکن نہیں لگتا۔ افغان حکومت کو معاشی بحران کا سامنا ہے، اور بین الاقوامی پابندیوں نے ان کے پاس جدید آلات کی کمی پیدا کر دی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان کی سرحدی سلامتی ہمیشہ کمزور رہی ہے، اور اب بھی ٹی ٹی پی کے نئے مراکز اور بھرتی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر یہ چوکیاں واقعی موثر ہوتیں تو پاکستان میں دہشت گردی کی لہر اس قدر شدت نہ پکڑتی۔ اب یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟

جواب دیں

Back to top button