Column

بھارتی آبی دہشتگردی کا مذموم سلسلہ

بھارتی آبی دہشتگردی کا مذموم سلسلہ
جہاں پچھلے دو مہینوں سے جاری رہنے والی تیز بارشوں، سیلابی صورت حال، کلائوڈ برسٹ اور لینڈ سلائیڈنگ سے ملک بھر میں 8سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، وہیں پچھلے کچھ روز سے بھارت کی مسلسل آبی دہشت گردی ملک و قوم کے مسائل میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر پڑوسی اپنے حصّے کی مصیبت پاکستان پر ڈال رہا اور بے حساب پانی چھوڑ رہا ہے، اپنے ملک میں آئے سیلاب میں پاکستان کو ڈبو دینے کی اس کی ازلی خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکے گی۔ پاکستان نے پہلے بھی سیلاب کی مشکل صورت حال کا سامنا کیا اور پوری قوم مل کر اس صورت حال سے باہر نکلی۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ جنگ مئی میں عبرت ناک شکست ملنے کے بعد بھارت نے پاکستان میں اپنے زر خرید غلاموں کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کیا، لیکن پاک افواج نے دشمن کے اس مذموم ہتھکنڈے اور حربے کا بہتر توڑ کیا اور اس کے پالے ہوئے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کو بڑی تعداد میں جہنم واصل کیا۔ جنگی میدان میں مات کھائی۔ سازش ناکام ہوئی تو دشمن اب آبی جارحیت کرکے پاکستان کی مشکلات بڑھا رہا ہے، اس بار بھی دشمن کسی طور کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد و بحالی کے لیے سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ پاکستان جلد صورت حال پر قابو پانے میں سرخرو ہوگا۔ گزشتہ روز بھی بھارت کی جانب سے بڑی آبی جارحیت کرکی سیلابی ریلا چھوڑا گیا ہے۔ بھارتی آبی جارحیت جاری ہے، بھارت نے ایک اور بڑا سیلابی ریلا چھوڑ دیا، جس کے بعد پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دریائے چناب سے ملحقہ علاقوں کو مزید خطرہ بڑھ گیا، 8لاکھ کیوسک پانی کا بڑا سیلابی ریلا سلال ڈیم سے چھوڑا گیا۔ ریلا 2روز بعد ہیڈ مرالہ پہنچ جائے گا۔ مقامی انتظامیہ کی جانب سے گوجرانوالا، سیالکوٹ، وزیرآباد، سمبڑیال، گجرات، ہیڈ مرالہ، خانکی سے ملحقہ علاقوں میں شہریوں کے انخلا کے لیے اعلانات کیے جارہے ہیں اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ موسمیاتی ماہرین نے کہا کہ2ستمبر کو ( آج ) پہنچنے والا 8لاکھ کیوسک کا ریلا پہلے سے موجود پانی کے ساتھ مل کر مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریائوں میں پانی چھوڑے جانے اور موسلادھار بارشوں کے باعث پنجاب کے تین بڑے دریائوں راوی، چناب اور ستلج میں سیلاب سے صورت حال سنگین ہوگئی ہے، ہزاروں دیہات زیر آب آنے سے سیکڑوں مویشی ہلاک اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے پنجاب عرفان علی کاٹھیا کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سیلاب سے اب تک 33افراد جاں بحق جب کہ 20لاکھ افراد اور 2200دیہات متاثر ہوئے، آئندہ 2سے 3روز تک مزید بارشیں متوقع ہیں، جس کے پیش نظر پنجاب کے دریائوں میں اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ پنجاب کے تینوں دریائوں میں تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے، 7لاکھ افراد نے متاثرہ علاقوں سے انخلا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو کے ساتھ پاک فوج نے بھی سیلابی صورت حال میں ہمارا ساتھ دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہیڈسلیمانکی اور ہیڈ اسلام کے اطراف دیہات متاثر ہوسکتے ہیں۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق بھی دریائے چناب میں ہیڈ خانکی اور قادرآباد پر اونچے درجے کے سیلاب ہیں، خانکی پر بہائو 2لاکھ 29ہزار جبکہ قادرآباد پر 2لاکھ3ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ ادھر دریائے چناب کا سیلابی ریلا سیالکوٹ، وزیرآباد اور چنیوٹ میں تباہی مچانے کے بعد جھنگ میں داخل ہوگیا۔ جھنگ میں سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو کشتیوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، متاثرہ خواتین اور بچوں نے رات کھلے آسمان تلے گزاری۔ دوسری جانب پنجاب کے مختلف شہروں میں موسلادھار بارش نے سیلاب میں ڈوبے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، متعدد علاقے بجلی سے محروم ہوگئے۔ خیبرپختونخوا میں بارشوں سے مختلف حادثات میں 5افراد جاں بحق، 5زخمی ہوئے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں بھی بارش کے باعث گھر کی چھت گر گئی جس کے نتیجے میں ایک خاتون دو بیٹیوں سمیت جاں بحق ہوگئی۔ ادھر سندھ حکومت نے سیلاب سے ممکنہ بے دخلی کے حوالے سے اپنے پہلے تخمینے پر نظرِ ثانی کی ہے اور اب اندازہ لگایا جارہا ہے کہ دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے پر رہنے والے ساڑھے 16لاکھ سے زائد افراد خطرے سے دوچار ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے میں سپر فلڈ (سیلاب) کے خطرے کے پیشِ نظر محکمہ آبپاشی کو تیار رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ ممکنہ سیلاب اور تیاریوں کا جائزہ لینے کیلئے گدو بیراج پہنچ گئے، جہاں مقامی انتظامیہ نے مراد علی شاہ کو ممکنہ سیلاب سے متعلق بریفنگ دی۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ پنجاب کے چاروں دریا میں ایک ساتھ پانی آیا اور اب یہ پانی دریائے سندھ میں گدو بیراج پر آئے گا، اس سال گدو بیراج سے ساڑھے 5لاکھ کیوسک پانی گزار چکا ہے جبکہ این ڈی ایم اے رپورٹ کے مطابق 8سے 11لاکھ کیوسک تک پانی آ سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گدو اور سکھر بیراج پر 9لاکھ کیوسک سے پانی تجاوز کر جائے تو اسے سپر فلڈ کہتے ہیں، 9لاکھ سے زیادہ کیوسک پانی آیا تو سارا کچے کا علاقہ ڈوب جائے گا لہٰذا ہر گائوں کی ورکنگ مکمل کر کے ضلعی انتظامیہ کو دے دیں، پاک فوج کی ٹیمیں اسٹینڈ بائے ہیں، ضرورت پڑنے پر پہنچ جائیں گی، یہی کوشش ہوگی کہ انسانی جان اور مویشیوں کو نقصان نہ ہو۔ ایسی صورت حال میں تمام اداروں کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ امداد اور بحالی کی سرگرمیوں میں مزید تیزی لائی جائے۔ شہریوں کو محفوظ مقامات پر جلد از جلد منتقل کیا جائے۔ پاک فوج اور دیگر فلاحی ادارے سیلاب زدگان کی مدد اور بحالی کے لیے تیزی سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا معاملہ موثر طور پر عالمی سطح پر اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایسا بندوبست کیا جائے کہ آئندہ پڑوسی اس قسم کی اوچھی حرکت نہ کر سکے۔ دوسری جانب ملک میں آبی ذخائر تعمیر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چنداں تاخیر نہ کی جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے بنائے جائیں اور فوری پایہ تکمیل کو پہنچائے جائیں۔ سیلاب کی روک تھام میں یہ اقدام خاصا ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
سیوریج ملا پانی، آخر کب تک؟
پاکستان میں بسنے والی آبادی کے بڑے حصّے کو پینے کے لیے صاف و شفاف پانی میسر نہیں۔ ملکی آبادی کا بہت بڑا حصّہ آلودہ، بدبودار اور مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ چھوٹے بچے صاف پانی کی عدم فراہمی کے باعث کم سنی میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں۔ گدلا اور آلودہ پانی شہریوں کی اکثریت کو مختلف امراض میں مبتلا کرنے کا باعث ہے۔ صاف پانی ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے اور شہریوں کو شفاف پانی کی فراہمی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ اس حوالے سے ملک میں صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سالہا سال سے یہی روش چلی آرہی ہے۔ وفاقی وزیر صحت نے بھی شہریوں کو مضر صحت پانی کی فراہمی کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ گلگت سے کراچی تک سب سیوریج کا پانی پی رہے ہیں، ملک میں 68فیصد بیماریاں پانی کی وجہ سے ہیں۔ کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ صحت کی راہ میں مسائل کہاں ہیں اس کو دیکھنا ہوگا، ملک میں ہیلتھ کیئر سسٹم نہیں سک کیئر سسٹم ہے، ہم مریض کو مریض بننے سے روکنے کے بجائے مریض بنادیتے ہیں، ہمیں اس نظام کو ٹریک پر لانے کی ضرورت ہے۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماحول ہی انسانوں کو بیمار کرنے کی فیکٹری ہے، ہمیں اس کو بہتر کرنا ہوگا، ڈاکٹر روزانہ 300مریضوں کو دیکھتے ہیں حالانکہ اس کا رینج 35، 40کا ہوتا ہے۔ ملک میں ہر سال 11ہزار مائیں حمل کے دوران انتقال کر جاتی ہیں۔ وفاقی وزیر صحت نے انتہائی تشویش ناک صورت حال سے پردہ اُٹھایا ہے۔ سیوریج ملا پانی پی کر شہری صحت بخش تو ہرگز نہیں رہ سکتے، اس کے ان کی صحتوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بیماریاں بڑھتی ہیں اور آبادی کے بڑے حصّے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ وطن عزیز میں ویسے ہی صحت کی مناسب سہولتیں میسر نہیں۔ غریب عوام نجی اسپتال کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ادویہ کی قیمتیں بھی خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ جان بچانے والی ادویہ سونے کے بھائو ملتی ہیں۔ اس صورت حال میں شفاف اور صاف پانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس کو اس کی فراہمی کے لیے حکومت کو راست کوششیں کرنی چاہئیں۔ بیماریوں کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ماحول کو ہر صورت انسان دوست بنایا جائے۔ شہری بھی اس میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں۔

جواب دیں

Back to top button