Column

قوموں کی ترقی

قوموں کی ترقی
تحریر : علیشبا بگٹی

قوموں کی ترقی کا راز محض وسائل یا تعداد میں نہیں، بلکہ فکر، تعلیم، تربیت، وطن پرستی، اور سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اُنیسویں صدی میں جب برصغیر کے مسلمان زوال کے اندھیروں میں گم ہو چکے تھے، ایسے میں سر سید احمد خان نے عقل، فہم، علم اور اجتہاد پر مبنی ایک فکری تحریک کا آغاز کیا۔ اُن کا یہ موقف تھا کہ اگر مسلمانوں کو عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ تو انہیں سائنسی تعلیم اپنانا ہوگی، اگر انگریزوں سے نجات چاہتے ہیں. تو انگریزی پڑھنا پڑے گا۔ انگریزی زبان سیکھنی ہوگی اور جدید دنیا کے اسباب و اصولوں کو سمجھ کر اُن پر عمل کرنا ہو گا۔
سر سید احمد خان (1817۔1898) برصغیر کے ان عظیم مصلحین میں شمار ہوتے ہیں. جنہوں نے زوال پذیر مسلم معاشرے کو جھنجھوڑا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں کی علمی، معاشی اور سماجی حالت ابتر ہوچکی تھی۔ سر سید نے اس صورتحال کو صرف نوآبادیاتی مظالم کا نتیجہ نہیں بلکہ خود مسلمانوں کی علم سے دوری، تقلیدی سوچ اور غیر معقول رویوں کا شاخسانہ قرار دیا۔
سر سید کا فلسفہ قرآن فہمی، عقل پسندی اور تجرباتی سائنس پر مبنی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ’’ یہ اسباب کی دنیا ہے، یہاں وہی کامیاب ہے جو اللّٰہ کے بنائے آفاقی اصولوں کے مطابق عمل کرے‘‘۔
یہ ایک نہایت گہرا اور دور رس فقرہ ہے۔ سر سید کی مراد یہ تھی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کائنات کو ایک خاص نظام (Cause & Effect) پر تخلیق کیا ہے۔ جو قومیں اس نظام کو سمجھتی ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتی ہیں، کامیاب ہو جاتی ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سر سید مسلمانوں کو جدید سائنسی تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ خود بھی اس نظامِ فطرت کا حصہ بن سکیں۔
سر سید کا انگریزی زبان اور سائنس کی تعلیم پر زور دینا دراصل اُن کا اجتہادی وژن تھا۔ انہوں نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے جدید تعلیم کے دروازے کھولے۔ ان کا کہنا تھا ’’ جب تک ہم انگریزی زبان نہیں سیکھیں گے، ہم اپنے سیاسی، قانونی اور علمی حقوق سے محروم رہیں گے‘‘۔
یہ بات اُس دور میں بہت متنازعہ تھی، مگر وقت نے سر سید کے موقف کو سچ ثابت کیا۔ اُن کی کوششوں کا نتیجہ آج کے تعلیمی اداروں، بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
سر سید نے تعلیم کو صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ بقائ، خودمختاری، اور ترقی کی اساس سمجھا۔ اُن کا مقصد ایک ایسا مسلم معاشرہ تشکیل دینا تھا، جو جدید علوم میں ماہر ہو، مذہب و عقل میں ہم آہنگی رکھتا ہو، اور دنیا کے بدلتے نظام کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
سر سید احمد خان کی وفات کو127سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر اُن کی پیشگوئیاں اور تجاویز آج بھی ویسے ہی درست ثابت ہو رہی ہیں۔ آج بھی مسلمان دنیا میں تعلیمی، سائنسی، اور تکنیکی میدان میں پیچھے ہیں۔
ہم آفاقی اصولوں کو سمجھے بغیر محض جذبات سے فیصلے کرتے ہیں۔ فرقہ واریت، تقسیم، اور علمی جمود نے ہمیں اکٹھا ہونے سے روکا ہوا ہے۔
اتحاد اتفاق ہمیشہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت رہی ہے۔ اسی لیے ’’ سب سے پہلے تو اکٹھے ہونا ہوگا‘‘۔
یہ صرف فکری یا نظریاتی اتحاد نہیں بلکہ علمی، معاشی، سائنسی اور تہذیبی اتحاد کی پکار ہے۔ ہمیں مسلکی، لسانی، اور علاقائی تعصبات سے بالاتر ہو کر تعلیم، تحقیق، اور ترقی کے میدان میں یکجا ہونا ہو گا۔ کیونکہ قوموں کی بقاء اتفاق، اتحاد اور تعلیم سے ہی ممکن ہے۔
اگر آج بھی ہم سر سید کے فکر و فلسفے کو نہ سمجھ پائے تو آئندہ بھی ہم ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔
سر سید احمد خان نے نہ صرف زوال کی تشخیص کی، بلکہ علاج بھی تجویز کیا۔ اُن کا یہ پیغام آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ اگر ہم دنیا میں باعزت مقام چاہتے ہیں تو ہمیں سائنسی، عقلی اور تعلیمی ترقی پر توجہ دینی ہوگی۔ اللّٰہ کے آفاقی اصولوں کو سمجھنا اور اُن پر عمل کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سر سید کی فکر کو محض کتابوں میں نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔
قاسم علی شاہ جاپانی قوم کی ترقی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جاپانی قوم کا ایک فرد سال میں 2450گھنٹے کام کرتا ہے۔ جو کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ ان میں شروع سے ہی محنت کرنے کا مزاج پایا جاتا ہے۔ جاپان میں محنت کرنے والے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جاپانی قوم کا ہر فرد ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہر کوئی نہایت ذمہ داری سے اپنا کام کرتا ہے۔ جاپان میں ایک دفعہ ٹرین کا حادثہ ہوا اور ایک اعلیٰ عہدیدار کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس عہدے دار نے عذر پیش کرنے کی بجائے مر جانے کو ترجیح دی۔
جاپانی کفایت شعار ہوتے ہیں۔ جاپانی اپنے وسائل، توانائیاں اور پیسے، کفایت شعاری سے استعمال کرتے ہیں۔
جاپانی اپنے وطن، تعلقات اور معاملات میں وفادار ہوتا ہے۔ یہ وفاداری ہی ان کا معیار ہے۔ ان کی وفاداری کی ایک مثال یہ ہے، جاپانی قوم اپنے آبائی علاقوں کو نہیں بھولتی اور وہاں جا کر فلاح کے کام کرنا پسند کرتی ہے۔
جاپان دنیا کا واحد ملک ہے۔ جس نے اپنے دو شہروں کی ایٹم بم کے سبب مکمل تباہی کا نقصان برداشت کیا۔ اس کے بعد بھی یہ قوم اپنے پاں پر دوبارہ کھڑی ہوگئی۔ گرنے کے بعد اٹھنا، اٹھ کر چلنا اور چلتے چلے جانا، یہ جاپانیوں کا شیوا ہے ۔ اور یہی ان کی بڑی خوبی ہے۔ یہ قوم ہار نہیں مانتی ان لوگوں کے رویوں میں ہمت باقی ہے۔ یہ لوگ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہتے ہیں۔ اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔
جاپانی کام کو سب سے اہم رکھتے ہیں۔ یہ اتنی ہمت والی قوم ہے کہ یہاں پر بوڑھے بزرگ لوگ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ قوم اپنی آخری عمر تک کام کرتی ہے۔ ان کی محنت و جدت کی مثال یہ ہے کہ چالیس کی دہائی میں ان پر ایٹم بم گرائے گئے اور ساٹھ کی دہائی میں جس چیز پر ’’ میڈ ان جاپان‘‘ لکھا ہوتا تھا، اس کو سب سے بہترین مانا جاتا۔
ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ جاپانیوں میں تجسس کی خواہش بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ جاپان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے۔ جہاں بہت زیادہ تحقیق ہوتی ہے۔ تحقیق کو بہت زیادہ پرموٹ کیا جاتا ہے۔ تحقیق گورنمنٹ کی ترجیحات میں شامل ہے۔ جاپان میں تحقیق کرنے والے کو عزت دی جاتی ہے۔ آج جو دنیا میں ترقی کرتے خوبصورت نظر آرہی ہے۔ اس میں تحقیق کرنے والوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ اگر تحقیق کرنے والے نہ ہوں۔ تو شاید دنیا اتنی خوبصورت نہ ہو۔ ترقی میں تحقیق نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس قوم کی ایک بڑی خوبی کتابیں پڑھنا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ رسائل جرائد اور کتابیں پڑھنے والی قوم، جاپانی قوم ہے۔ جاپانی قوم انگلش زبان کو زیادہ پسند نہیں کرتی۔ یہ اپنی زبان پڑھنا پسند کرتی ہے اور علم اپنی زبان کے ذریعے ہی آتا ہے۔ جن قوموں نے بھی دنیا میں ترقی کی ہے۔ وہ اپنی قومی زبان ہی کی بدولت کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو ریڈر ( پڑھنے والا) ہوتا ہے۔
وہی لیڈر ( رہنما ) ہوتا ہے اسی طرح جس قوم میں پڑھنے کا رجحان ہوتا ہے۔ وہی اس دنیا میں حکمرانی کرتی ہے۔
ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے۔ کہ ٹیم اور گروپس میں کام کرتے ہیں۔ جاپانی قوم بہت منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔ یہ ٹیم بناتے اور سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ان کے ہاں حکومتی سطح پر بھی بنائے جانے والے منصوبے بھی ٹیم اور گروپس میں بڑے منظم انداز میں شروع کرتے ہیں۔ اگر حکومت تبدیل بھی ہو جائے تو اگلی حکومت وہ منصوبہ مکمل کرتی ہے۔ جب ٹیم بلڈنگ اور منصوبہ بندی ہو تو پھر ایک حکومت دوسری حکومت کے کاموں کو سپورٹ کرتی ہے۔ کام حکومت چلانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ملک چلانے کے لیے ہوتا ہے۔ جب ملک ترجیح اول ہو تو پھر چاہے کوئی بھی حکومت آجائے ٹیم اپنا کام کرتی رہتی ہے۔
جاپان میں بچوں کو بچپن ہی سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سکھایا جاتا ہے۔ بچوں میں ذمہ داری قبول کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں بچے جوان بھی ہوجائیں ان کے کام والدین کر رہے ہوتے ہیں۔ جن بچوں میں ذمہ داری قبول کرنے کا مزاج نہ ہو۔ وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوتے۔ جس قوم کے بچوں میں بچپن سے ہی اپنے پاں پر کھڑا ہونے کا مزاج ہو تو وہ ملک اور اس کے ادارے اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے اور کامیاب ہوتے ہیں۔
جاپانی قوم کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ جاپانی قوم اپنی ثقافت کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ ثقافت ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ثقافت انسان میں تحریک پیدا کرتی ہے۔ جاپانی قوم دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کرتی اور نہ ہی دوسروں سے مرغوب ہوتی ہے، انہیں اپنی ثقافت پر ناز ہے۔
اپنی ذات پر محنت، بہترین رویہ وہ بنیادی عوامل ہیں۔ جنہیں کوئی بھی قوم اگر اپنا لے، تو پھر وہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
تعلیم ہر ترقی یافتہ قوم کی بنیاد رہی ہے۔ مسلمانوں کے سنہری دور (750۔1258ئ) میں جب تعلیم اور سائنس کو فروغ ملا، تو وہ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب بن گئے۔ مغرب میں ’’ نشاۃِ ثانیہ‘‘ (Renaissance)اسی وقت شروع ہوئی جب انہوں نے تعلیم، فلسفہ، اور سائنس کو فروغ دیا۔
انصاف پر مبنی معاشرہ ہر قوم کی ترقی کا ستون ہوتا ہے۔ جب حکمران اور عام عوام قانون کے تابع ہوں، تو کرپشن کم ہوتی ہے، اور اعتماد بڑھتا ہے۔ جب جان مال ذریعہ معاش عزت اور عزت نفس محفوظ ہو۔ انصاف کا حصول سستا آسان فوری اور موثر ہو۔ تو قوم و ملک مضبوط ہو جاتے ہیں۔ جیسے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں عدل و انصاف نے اسلامی سلطنت کو مستحکم کیا۔ مستحکم حکومتیں ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ادارے مضبوط ہوں، اور قیادت مخلص ہو، تو ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ جرمنی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مضبوط ادارے اور قیادت کے ذریعے خود کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کر لیا۔ معیشت کی مضبوطی قوموں کو خود کفیل بناتی ہے۔ صنعتی انقلاب نے یورپی اقوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی پر عبور نے چین، امریکہ، اور دیگر اقوام کو عالمی سطح پر برتری دی۔ وہ قومیں جو داخلی انتشار سے پاک ہوں، اور جن میں قومی اتحاد ہو، وہ جلد ترقی کرتی ہیں۔ جاپان، جو ایک جزیرہ نما قوم ہے، نے قومی ہم آہنگی کے ذریعے دنیا کی بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ جو قومیں اپنی زبان، ثقافت، اور اقدار کی حفاظت کرتی ہیں، وہ مضبوطی سے کھڑی رہتی ہیں۔ نظریاتی استحکام قوموں کو اندرونی طور پر متحد اور طاقتور بناتا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے تحقیق و ترقی (R&D)پر سرمایہ لگایا۔ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیاں اور تحقیقی مراکز نے نئی ایجادات سے ترقی کو ممکن بنایا۔ تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم، انصاف، اتحاد، اور محنت کو اپنی بنیاد بناتی ہیں۔ ترقی ایک مسلسل عمل ہے، جو وقت، قربانی، اور سمجھ داری سے حاصل ہوتا ہے۔
علیشبا بگٹی

جواب دیں

Back to top button