سیلاب ۔۔۔ غفلت کا عذاب
سیلاب ۔۔۔ غفلت کا عذاب
تحریر : صفدر علی حیدری
پہلے کے پی کے اور اب پنجاب، تباہی کی ایک دل خراش داستان رقم ہو رہی ہے۔ بربادی کے مناظر آنکھوں کے آگے سے ہٹ نہیں رہے۔ لفظ روٹھ گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھا جائے، کیا کہا جائے؟ کیسے اپنے غم کا اظہار کیا جائے؟ ایک مسلسل بربادی ہے جو اس ملک کے پیچھے ہے۔ سیلاب کسی آسمانی عذاب کی طرح ملک کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ شہر کے شہر ڈوب گئے۔ ہزاروں بستیاں برباد ہو گئی ہیں۔ مویشی بہہ گئے ہیں۔ املاک کا اس قدر نقصان ہوا ہے بیان کرنا مشکل ہے۔ سب سے بڑھ کر انفراسٹرکچر کی بربادی ہے۔ سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہوا کیا ہے اور کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اور ابھی تو کئی علاقوں سے سیلابی ریلے سے گزرنا ہے۔ میرے اپنے شہر میں پنجند کے مقام پر لاکھوں کیوسک پانی کا طوفانی ریلا گزرنے والا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب سے گزرنے والے دریائے چناب، راوی اور ستلج مختلف علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ حکام کے مطابق پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے اب تک کم از کم 30افراد ہلاک جبکہ 15لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 1988ء کے بعد تینوں دریائوں میں آنے والی سب سے بڑی طغیانی ہے۔ دریائے چناب کے سیلابی ریلے سے گجرات، جھنگ اور چنیوٹ اور دیگر اضلاع میں نقصان ہوا ہے تو وہیں دریائے راوی نے لاہور شہر اور اس کے مضافات میں تباہی مچائی ہے۔ اُدھر دریائے ستلج بھی بپھرا ہوا ہے اور قصور سمیت دیگر ملحقہ اضلاع میں سیلابی صورتحال ہے۔ دریائے چناب کی بات کی جائے تو گجرات، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، بھیرہ اور چنیوٹ سمیت مختلف علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد اب سیلابی ریلا ملتان کی جانب بڑھ گیا ہے۔
دریائے راوی کے سیلابی ریلے نے ٹھوکر نیاز بیگ اور موہلنوال کے نواح میں واقع رہائشی سوسائٹیز میں بھی تباہی مچائی اور سیکڑوں گھروں میں سیلابی پانی داخل ہو گیا۔ جمعہ کی صبح لاہور کے علاقے چوہنگ، منظور گارڈن، برکت کالونی سمیت مختلف علاقوں میں دریائے راوی کا سیلابی پانی داخل ہوا۔ پارک ویو سوسائٹی کے مختلف بلاکس میں پانی پہنچ گیا جبکہ رنگ روڈ سے ملحقہ بادامی باغ میں بھی سیلابی صورتحال نظر آئی۔ اس سے قبل ریسکیو 1122نے بتایا تھا کہ امدادی سرگرمیوں کے دوران لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات منتقل کیا جا رہا ہے۔
راوی کے بالائی ملحقہ علاقوں میں بارشیں اور انڈین تھین ڈیم سے پانی کے اخراج کی وجہ سے راوی میں بلوکی کے مقام پر اُونچے درجے کا سیلاب ہے۔ جبکہ دریائے راوی میں دو سے تین ستمبر تک ایک لاکھ 25ہزار سے ایک لاکھ 50ہزار کیوسک کا ریلا سدھنائی پہنچے گا۔ سدھنائی کے مقام پر یہ سیلابی ریلا شدید سیلابی صورتحال پیدا کر سکتا ہے جس کی وجہ سے اوکاڑہ، رینالہ خورد، دیپالپور، گوگیرہ ، تاندیانوالہ، کمالیہ، پیر محل، اڈا حکیم اور سدھنائی کے علاقے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
دریائے ستلج میں سلیمانی ہیڈ ورکس میں دو لاکھ 87ہزار 384کیوسک پانی گزر رہا ہے اور پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دریائے ستلج میں اسلام ہیڈ ورکس سے ایک لاکھ 13ہزار 124کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ دریائے ستلج میں طغیانی کی وجہ سے قصور کے نواحی دیہات متاثر ہوئے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر انتہائی اُونچے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے ستلج میں سیلاب کی وجہ سے ضلع پاکپتن، وہاڑی اور بہاولنگر جیسے شہر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ حکومتِ سندھ کی توجہ پنجند پر مرکوز ہے جہاں پنجاب سے آنے والے دریائے راوی، چناب اور ستلج کا پانی جمع ہو کر دریائے سندھ میں شامل ہو گا۔ یہاں سے اندازہ لگایا جائے گا کہ گدو کے مقام پر کتنا پانی پہنچے گا ؟
حکومت نے آٹھ اضلاع سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، سرگودھا، لاہور، قصور، اوکاڑہ اور فیصل آباد میں فوج کو بھی مدد کے لیے بلا رکھا ہے۔ سردست سیلاب متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے ، ان کو غذائی امداد ، دوائیں کپڑے فراہم کرنے کا وقت ہے ۔
ہمیں پتہ ہے کہ یہ سیلاب غفلت کو عذاب ہے۔ ہم نے غفلت میں مار کھائی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش میں آ جائیں۔ آئیے! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیلاب اور غفلت کے عذاب سے جلد چھٹکارا دلائے ، آمین۔۔۔
اب میرا ایک مختصر سا افسانہ بھی پڑھ لیجئے
آخری بند۔۔۔۔۔۔
’’ ابا! سیلاب کا خطرہ کب ٹلے گا؟‘‘
’’ بیٹا ! جب دریا کا زور ٹو ٹے گا‘‘
’’ ابا یہ دریا کو ہوا کیا ہے ؟ اتنے غصے میں پہلے تو کبھی نہیں دیکھا ؟‘‘
’’ بہت ناراض ہے ہم سے‘‘
’’ وہ کیوں ابا؟‘‘
’’ ہم اس کے بچوں کی قدر جو نہیں کرتے‘‘
دریا کے بھی کوئی بچے ہوتے ہیں‘‘ ، وہ حیرت زدہ سا تھا۔
’’ دریا کا پانی دریا کا بچہ ہی تو ہوتا ہے، میرے بچے ۔ ہم اس کی قدر نہیں کرتے، جبھی تو یہ زمینوں تک پہنچ پاتا ہے نہ ہونٹوں تک اور جب غصے میں ہو تو گائوں کے گائوں بہا لے جا تا ہے‘‘
’’ ابا تیری باتیں، میری سمجھ میں نہیں آتیں‘‘
’’ یہ سادہ باتیں تو بڑے بڑوں کی سمجھ میں آتیں، تو تو پھر بھی بچہ ہے میرے بچے ‘‘
’’ بس تو یہ بتا دریا کا زور کب ٹوٹے گا ؟ ‘‘
’’ بہت جلد میری جان، بہت جلد۔ ایک نہ ایک کو تو ٹوٹنا ہی ہے آخر‘‘
’’ کیا مطلب؟ ‘‘
’’ یا دریا کا زور ٹوٹے گا یا بستی کا آخری بند ‘‘
باپ نے بچے کی آنکھوں میں جھانکا تو اسے یو ں لگا جیسے سیلابی ریلا بیٹے کی چمک دار آنکھوں میں سمٹ آیا ہو۔ پہلی بار احساس ہوا کہ دریا کی سیلابی لہروں کے آگے بند باندھنا آسان ہے مگر انسانی پلکوں کے آگے بند باندھنا بہت مشکل، پھر یہ بند ٹوٹ گیا اور بوڑھے باپ کو بہا لے گیا۔







