قانون نافذ کرنے والے ادارے توجہ دیں

قانون نافذ کرنے والے ادارے توجہ دیں
تحریر : رفیع صحرائی
چند ماہ کے وقفے کے بعد آج کل سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر ایک مرتبہ پھر ایسی ایپس متحرک ہو گئی ہیں جو سستی موٹر سائیکل، سکوٹی، رکشہ اور کاریں آفر کر رہی ہیں۔ ان وہیکلز کی قیمتیں حیرت انگیز حد تک کم بتائی جا رہی ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک اشیاء ریفریجریٹر، فریج، ایل ای ڈی، آٹومیٹک واشنگ مشین، مہنگے موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کوڑیوں کے بھائو بیچنے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں جرائم کی روک تھام کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد اپنا کام دھڑلے سے جاری رکھتے ہیں۔ جرائم کی روک تھام میں قانون کی حکمرانی کا موثر اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے جتنا بڑا قانون شکن ہوتا ہے اسی قدر وہ معزز کہلاتا ہے۔ جرائم کی سزائیں نہ ہونے کے سبب قانون کے بعض رکھوالے بھی قانون شکن عناصر کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاست دانوں اور حکمرانوں کی غلامی سے ہی فرصت نہیں ملتی وہ عوام کا کیا سوچیں گے۔ یہ ادارے حکمرانوں کی کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف مجرم قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ یونہی تو ہم عدل و انصاف کے معاملے میں دنیا بھر میں پست ترین درجے تک نہیں پہنچے۔
ہمارے یہاں لوگ سرِعام فراڈ کا دھندہ کرتے ہیں۔ لٹنے والے دہائیاں دیتے رہ جاتے ہیں مگر ان کی کوئی نہیں سنتا۔ کبھی ڈبل شاہ کے روپ میں فراڈیے منظرِ عام پر آتے ہیں تو کبھی ہائوسنگ سوسائٹی کا جھانسہ دے کر ایک سو پلاٹ کے بدلے تیس ہزار فائلیں بیچ کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کے جعلی میسجز بھیج کر لوگوں کو ان کی کمائی سے محروم کرتے ہیں تو کبھی قرضہ دینے والی ایپس کے ذریعے عوام کو قرضے کے جال میں پھانس کر ان کی زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر دیتے ہیں۔
لوٹنے کے نئے نئے ڈھنگ، نئے نئے طریقے ایجاد کر لیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خوب صورت خواتین کا سہارا لے کر ان کی مردوں سے آن لائن دوستیاں کراتے ہیں اور کمزور لمحات کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر شکار کو بلیک میل کرتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو بے شمار لوگوں کو ہنی ٹریپ کے ذریعے اغوا کر کے ان کے ورثا سے بھاری تاوان وصول کر چکے ہیں۔
یہ فراڈیے اور وارداتیے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے طریقہ ہائے واردات میں بھی جدت لاتے رہتے ہیں۔ آج کل پٹرول کی جگہ گاڑیوں کو الیکٹرک انرجی پر منتقلی کا دور دورہ ہے۔ الیکٹرک کاریں، الیکٹرک بائیکس، الیکٹرک رکشے اور الیکٹرک سکوٹیوں کی مانگ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک ایوریج سکوٹی دو لاکھ روپے کے لگ بھگ دستیاب ہے جو الیکٹرک بیٹری سے چلتی ہے اور ایک چارجنگ میں اوسطاً ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ سفر کر لیتی ہے۔ الیکٹرک کاریں بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں جن کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے فراڈیوں نے بھی اپنا طریقہ واردات تبدیل کر لیا ہے۔ آپ کو فیس بک، انسٹاگرام اور ٹیلی گرام پر ایسی تشہیری ویڈیوز کی بھرمار نظر آئے گی جس میں کسی گودام کے اندر سیکڑوں کی تعداد میں سکوٹیاں کھڑی نظر آئیں گی اور ساتھ میں یہ بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ سکوٹیاں صرف بیس یا پچیس ہزار روپے فی کس میں دستیاب ہیں جو ایک بیٹری چارجنگ میں پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔ دو سیٹر الیکٹرک کاروں کے خوب صورت ڈیزائن دکھائے جاتے ہیں جن کی قیمت پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ بعض ایپس میں آپ کو الیکٹرک رکشے چالیس سے پچاس ہزار روپے میں دینے کی آفر کی جاتی ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ آپ کو ان ایپس کے ذریعے 80انچ ایل ای ڈی پچیس ہزار روپے میں، آٹو میٹک واشنگ مشین جس کی بازار میں قیمت 80ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہے وہ صرف 18ہزار روپے میں، جہیز پیکیج جو کم از کم پانچ لاکھ روپے کی آئٹمز پر مشتمل ہوتا ہے صرف 70ہزار روپے میں اور بہترین لیپ ٹاپ صرف دس ہزار روپے میں دینے کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔ ان ایپس میں آپ کو کسی بھی شوروم کا ایڈریس نہیں بتایا جاتا۔ رابطے کے لیے ایک واٹس اپ نمبر دیا جاتا ہے جس کے ذریعے آپ اپنی مطلوبہ آئٹم حاصل کر سکتے ہیں۔
کم آمدنی والے افراد کے لیے یہ پیشکشیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ 35ہزار روپے کی تو رکشہ کی بیٹری آتی ہے۔ نواں نکور پورا رکشہ 30ہزار میں کیسے وارا کھا سکتا ہے۔ ایک لاکھ روپے سے زائد کے کار کے ٹائر آتے ہیں، پوری کار پچاس ہزار روپے میں کس طرح مل سکتی ہے۔ بچت کے لالچ میں وہ دیئے گئے نمبر پر رابطہ کرتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی مطلوبہ سکوٹی، کار یا دوسری آئٹم کا سٹاک ختم ہو گیا ہے۔ دو چار دن تک تازہ مال آ جائے گا مگر اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ پریشانی سے بچنے کے لیے آپ ففٹی پرسنٹ رقم ادا کر کے ایڈوانس بکنگ کروا لیں۔ بقایا رقم مال وصول کرنے کے بعد ادا کر دیجئے گا۔ سستے مال کے لالچ میں جو لوگ آن لائن بکنگ کروا لیتے ہیں وہ اپنے پیسوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بعد میں مطلوبہ نمبر پر ان کا رابطہ ہی نہیں ہو پاتا۔
اغوا کار بھی یہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں۔ وہ گاہک کو کسی دور دراز شہر میں اس کے مطلوبہ مال کی ڈلیوری کے لیے بلواتے ہیں اور بے ہوش کرنے کے بعد وہاں سے اپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں۔ اکثر مغوی کچے کے ڈاکوئوں کو فروخت کر دیئے جاتے ہیں جو کئی گنا منافع وصول کر کے انہیں رہا کرتے ہیں۔
یہ سارا دھندا دھڑلے سے جاری ہے۔ ہمارے ہاں قانون صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب واردات ہو چکی ہوتی ہے۔ واردات روکنے کا یہاں کوئی رواج نہیں ہے۔ اگر حکمرانوں کی اپنے پروٹوکول اور مخالفین کو دبانے کے لیے انتظامی اداروں کے استعمال سے فرصت مل سکے تو آن لائن جرائم کی پیشگی روک تھام کی طرف بھی توجہ دی جائے تاکہ سادہ لوح عوام لٹنے سے بچ جائیں۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ ان لٹیروں کو ٹریس کر کے گرفتار کرنے کے لیے سی سی ڈی کے اندر ہی ایک ونگ بنا دیا جائے جو سوشل میڈیا پر متحرک ہر مشکوک ایپ پر نظر رکھے۔ نان کسٹم اشیاء کے نام پر فراڈ کرنے والوں کے واٹس ایپ گروپس کے ہینڈلرز کو ٹریس کر کے گرفتار کرے اور قرار واقعی سزا دے کر معاشرے کو ان ناسوروں سے پاک کری۔
رفیع صحرائی







