فلڈ مینجمنٹ اور میڈیا مینجمنٹ

فلڈ مینجمنٹ اور میڈیا مینجمنٹ
تحریر : روشن لعل
فلڈ مینجمنٹ کی سائنس، سیلاب کی آمد کو ناممکن سمجھنے کی غلطی سے گریز کرتے ہوئے ، اس کے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے پہلے سے وضع ہو چکی حکمت عملیوں کے مطالعہ اور ان پر عمل درآمد سے موسوم ہے۔ یہ سائنس ایسے افعال کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے سب سے پہلے سیلاب کے خطرے سے پیشگی آگاہی کو ممکن بنایا جاتاہے ۔ اس کے بعد سیلاب کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے ممکنہ نقصانات سے بچائو یا ان کا حجم کم کرنے کے لیے قدرتی یا انسانوں کے وضع کردہ وسائل استعمال کرکے عوام کے جان و مال اور انفراسٹرکچر کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس سائنس کے تحت، انسانوں کے ساختہ ہائیڈرولوجیکل ڈھانچوں کے قدرتی ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فلڈ مینجمنٹ سائنس کی تفہیم یہ بھی ہے کہ انجینئرنگ کے شعبے میں ہونے والی جدید تحقیق و ترقی کو شہری منصوبہ بندی کے دوران اس طرح بروئے کار لایا جائے کہ سیلاب جیسی آفت سے نمٹتے وقت سماجی اور اقتصادی مفادات کا جس حد تک ممکن ہو تحفظ کیا جا سکے۔ سیلاب کی آفت کو ایک ناگزیر حقیقت سمجھتے ہوئے، فلڈ مینجمنٹ کے شعبے میں ہونے والی تحقیق کے دوران یہ اخذ کیا جا چکا ہے کہ ہائیڈرولوجیکل انجینئرنگ کے تحت آبی گزرگاہوں پر بنائی گئی ڈیموں ، بیراجوں اور پلوں جیسی تعمیرات کا سیلاب سے کیا تعلق ہے اور ان تعمیرات سے پانی کے قدرتی بہائو پر مرتب ہونے والے اثرات سے سیلاب کا خطرہ کس حد تک کم یا زیادہ ہوا ہی۔ اس تحقیق کے دوران سامنے آنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیلاب جیسے قدرتی امر کے نقصانات کو آبی گزرگاہوں کے صدیوں کے دوران قدرتی طور پر متعین ہونے والے راستوں کو بحال کر کے اور قدرت کی اہم نعمت درختوں کی تعداد میں اضافہ کر کے بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ فلڈ مینجمنٹ سائنس کا تصور بہت پرانا ہے لیکن قدرتی ماحول میں انتہائی تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران اس شعبہ کی اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
وطن عزیز میں ان دنوں مختلف دریائوں میں رونما ہونیوالے تشویش ناک سیلاب سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ موجودہ تشویشناک سیلاب کے دوران ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمیں فلڈ مینجمنٹ کے بہترین مظاہر نظر آتے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں فلڈ مینجمنٹ کی بجائے میڈیا مینجمنٹ کے ہوشربا مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں میڈیا کے وسعت پذیر ہونے کے بعد سے جس طرح دیگر معاملات میں عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے صرف میڈیا مینجمنٹ پر اکتفا کیا جانے لگا ہے عین اسی طرح حالیہ سیلاب کے دنوں میں بھی عوام کی دادرسی کے انتظامات کرنے کی بجائے تمام تر توانائیاں میڈیا مینجمنٹ پر صرف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگرچہ فلڈ مینجمنٹ کے تحت سیلاب کے نقصانات سے مکمل چھٹکارا ناممکن ہے لیکن اس کے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کر کے انسانی جانوں، مویشیوں، گھریلو مال و اسباب اور معاشی مفادات کا بتدریج تحفظ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ پوری دنیا میں زیادہ تر شدید بارشیں دریائی سیلابوں کا باعث بنتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کا خطہ، جس میں ہمارا ملک پاکستان بھی واقع ہے، یہاں سالانہ 70سے 80فیصد بارشیں مون سون کے دوران برستی ہیں ۔ بارشیں ہی کیونکہ دریائی سیلابوں کا باعث بنتی ہیں اس وجہ سے 15جون سے 15اکتوبر تک کے عرصے کو یہاں سرکاری طور پر سیلاب کے موسم قرار دیا گیا ہے۔ فلڈ سیزن قرار دیئے گئے عرصے میں اس امکان کے تحت دریائوں کی مانیٹرنگ شروع کردی جاتی ہے کہ اس دوران معمول سے زیادہ بارشیں برسنے کی صورت کسی وقت بھی دریائی سیلاب رونما ہوسکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اقوام متحدہ کے تحت بنایا گیا ساءوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم ، ہر برس ماہ اپریل میں یہ پیش گوئی کر دیتا ہے کہ آنے والے مون سون کے دوران بارشیں کس حد تک معمول کے مطابق، معمول سے زیادہ یا معمول سے کم برسنے کا امکان ہے۔ رواں برس سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم نے ماہ اپریل کے آخر میں یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ خطے میں مون سون کی بارشیں معمول سے 35تا 70فیصد زیادہ برسنے کا امکان ہے۔ سیلاب کا موسم شروع ہونے سے قبل جب یہ اطلاع مل گئی تھی کہ مون سون میں معمول سے زیادہ بارشیں برسیں گی تو سیلاب آنے کے امکانات بڑھ جانے کے پیش نظر ضروری تھا کہ ہمارے ادارے اس اطلاع کی مناسبت سے فلڈ مینجمنٹ کے تقاضوں کے مطابق ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں کرتے۔
فلڈ مینجمنٹ کی بجائے یہاں کس طرح میڈیا مینجمنٹ کی گئی، دریائے راوی کے حوالے سے اس کی ایک مثال یہاں پیش کی جارہی ہے۔ راوی دریا پر بھارت میں واقع رنجیت ساگر ڈیم 21اگست2025ء کو 85فیصد تک بھرا جا چکا تھا۔ اسی ڈیم میں گزشتہ برس 21اگست کو کل گنجائش کا صرف30فیصد پانی ذخیرہ کیا جاسکا تھا۔ جس ڈیم سے ہنگامی طور پر چھوڑا گیا پانی نے شدید ڈھلوان پر رواں دواں ہو کر تیزی سے پاکستان کی طرف آتا ہو ، اس ڈیم میں اگر معمول سے 35تا 70فیصد زیادہ بارشوں کی پیشگوئی والے مون سون کے دوران 85فیصد تک پانی ذخیرہ ہو چکا ہو تو فلڈ مینجمنٹ کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میں متعلقہ اداروں کو فوری طور پر ہائی الرٹ ہو جانا چاہیے تھا۔ ہائی الرٹ ہونے کی بجائے، رنجیت ساگر ڈیم میں 85فیصد پانی ذخیرہ کیے جانے کی اطلاع کو غیر معمولی سمجھنے کی بجائے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ اس غفلت کے دوران جب 24اور 25اگست کو ہماچل پردیش میں دریائے راوی کو سیراب کرنے والے مختلف علاقوں میں 200ملی میٹر تک بارش برسی تو بھارتی حکام نے اسی طرح رنجیت ساگر ڈیم کے دروازے کھول دیئے جس طرح پاکستان نے 1992ء میں منگلا ڈیم کو بچانے کے لیے اس کے گیٹ کھول کر یکمشت 9لاکھ کیوسک پانی دریائے جہلم میں چھوڑ دیا تھا۔ گو کہ بھارت کسی طرح بھی ہمارا خیر خواہ نہیں ہے لیکن اس کے رنجیت ساگر ڈیم سے چھوڑے گئے لاکھوں کیوسک پانی کو اس وجہ معاندانہ کاروائی نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ ہنگامی حالات میں ہمارے اپنے اداروں کی منگلا اور تربیلا جیسے ڈیموں کو بچانے کے لیے ایک ساتھ لاکھوں کیوسک پانی چھوڑنے کی مثالیں موجود ہیں۔ اگر رنجیت ساگر ڈیم سے یک مشت لاکھوں کیوسک پانی چھوڑے جانے کے امکان کو یہاں بروقت محسوس کر کے ، دریائی راوی کے تاریخی بہائو کے علاقوں میں سکونت اختیار کیے ہوئے لوگوں کو ممکنہ سیلاب سے متاثر ہونے کے خطرے سے بروقت آگاہ کردیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ وہ لوگ اپنا مال و اسباب اور مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیتے۔ افسوس کہ معمول سے بہت زیادہ بارشوں کی پیشگوئی کے مطابق دریائوں میں شدید سیلاب آنے کے امکانات کے باوجود متعلقہ اداروں کے لوگ فلڈ مینجمنٹ کے اصولوں کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے ۔ سیلاب سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے اداروں کے جو سربراہ اور حکومتی نمائندے بروقت فلڈ مینجمنٹ کرنے میں ناکام رہے ، وہ اب ، اپنی کوتاہیاں میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔







