Column

چلتے چلتے ہم کہاں آگئے؟

چلتے چلتے ہم کہاں آگئے؟
احمد نبیل نیل
یہ سوچ کر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ ہم کس سمت بڑھ رہے ہیں۔ اس ملک میں رہنا اب کسی اذیت سے کم نہیں رہا۔ ہر روز کوئی نیا واقعہ دل دہلا دیتا ہے اور ہر بار یہ احساس مزید گہرا ہو جاتا ہے کہ انسانیت ہم سے کہیں دور جا چکی ہے۔ ہر طرف نفرت کا غلبہ ہے، غصے کی شدت ہے اور ہم میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔ ہم چاہتے ہیں یہ دنیا صرف ہمارے مطابق چلے، صرف ہماری ہی آواز سنی جائے، جیسے ہماری رائے ہی حرفِ آخر ہو۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نے دل د ہلا دیا۔ منظر یہ تھا کہ کچھ پھلوں کے ٹھیلے لگے ہیں، اردگرد لوگوں کا ہجوم موجود ہے اور انہی کے بیچ ایک شخص خون میں لت پت زمین پر پڑا ہے۔ اس کا بھائی اس کا سر گود میں لیے بے بسی کی حالت میں بیٹھا ہے، دونوں ہی شدید زخمی ہیں، مگر اس کے باوجود ایک اور شخص، جس نے سر پر کیپ پہن رکھی ہے، بار بار کرکٹ بیٹ سے اس زخمی کے سر پر وار کرتا جا رہا ہے۔ ویڈیو کے ساتھ جڑا کیپشن تھا ’’ 30روپے کی بحث پر دو بھائی قتل‘‘۔
یہ جملہ بظاہر ناقابلِ یقین محسوس ہوتا تھا۔ سوچنے پر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی محض 30روپے کے لیے کسی کو اتنی بے دردی سے مار سکتا ہے، وہ بھی دو افراد کو۔ لیکن جب میں نے اس خبر کی تصدیق کی تو یہ بات سچ نکلی۔ بی بی سی کے مطابق یہ دونوں بھائی اپنی دودھ کی دکان سے گھر واپس جا رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے ایک درجن کیلے خریدنے چاہے ، جن کی قیمت 130روپے فی درجن تھی۔ ان کے پاس یا تو 100کا نوٹ تھا یا 5000کا۔ پھل فروش کے پاس کھلے نہ تھے ۔ انہوں نے کہا کہ یا تو 100کے ہی دے دو یا پھر 30روپے کے کیلے نکال دو۔ اسی بات پر بحث چھڑ گئی جو بڑھتے بڑھتے جان لیوا تصادم میں بدل گئی۔
زبان کی تلخی ہاتھا پائی میں ڈھلی۔ دونوں بھائی چونکہ زیادہ تھے، انہوں نے پھل فروش کو مارا۔ پھر پھل فروش کے بھائی اور جاننے والے وہاں پہنچ گئے۔ ڈنڈوں اور کرکٹ بیٹ کا آزادانہ استعمال شروع ہوا اور دونوں بھائیوں کو اس وقت تک مارا گیا جب تک وہ زندگی اور موت کی لکیر عبور نہ کر گئے۔
یہ سب منظر کیمروں میں بھی قید ہو گیا۔ دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ کسی ویرانے میں نہیں بلکہ ایک مصروف شہر کے بیچوں بیچ ہوا، جہاں لوگوں کا ہجوم موجود تھا۔ مگر کیا کسی نے انہیں روکا؟ کیا کسی نے آگے بڑھ کر بیچ بچائو کیا؟ افسوس کہ سب تماشائی بنے رہے۔
یہ وہ نکتہ ہے جو بار بار ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ کسی کی لڑائی ہو جائے، کوئی حادثہ ہو جائے، کوئی بے ہوش ہو جائے، یا کسی کی جان پر بن آئے، تو لوگ مدد کرنے کے بجائے موبائل فون نکال کر ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ مقصد کیا ہوتا ہے؟ چند ویوز، چند لائکس، چند لمحوں کی شہرت۔ سوال یہ ہے کہ کیا ویڈیو بنانا اور ریچ حاصل کرنا کسی انسان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو آواز تو دے دی ہے مگر ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی عائد کی ہے کہ کب کیا شئیر کرنا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس ذمہ داری کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔
اس واقعے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اصل مسئلہ عدم برداشت ہی ہے۔ ہم سب کے اندر برداشت کا مادہ تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی ذرا سا اختلاف کر دے تو ہم مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں۔ یہ کیفیت صرف اس واقعے تک محدود نہیں بلکہ ہمارے روز مرہ میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ گلی محلوں، سڑکوں، بازاروں، دفاتر اور حتیٰ کہ ہسپتالوں تک میں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اتنے چڑچڑے اور اشتعال انگیز کیوں ہو گئے ہیں؟
وجہ صاف ہے۔ گھریلو دبائو، نوکریوں کا عدم تحفظ، مہنگائی، بے یقینی اور مسلسل ذہنی تنا نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کے بجائے معمولی باتوں پر پھٹ پڑتے ہیں۔ یہ غصہ اکثر ایسے افراد پر نکلتا ہے جو اس کے حقیقی ذمہ دار بھی نہیں ہوتے۔ یوں معاشرہ ایک ایسے آتش فشاں میں بدل گیا ہے جس کا لاوا کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔
یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہماری سب سے بڑی بیماری اب غربت یا مہنگائی نہیں بلکہ عدم برداشت ہے۔ ہم نے گفتگو کی جگہ گالی کو، دلیل کی جگہ تشدد کو اور صبر کی جگہ غصے کو اپنا لیا ہے۔ یہ کیفیت صرف دوسروں کے لیے نہیں بلکہ خود ہمارے لیے بھی تباہ کن ہے۔ اگر ہم نے برداشت، صبر اور دوسروں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہ کی تو آنے والا وقت مزید بھیانک ہوگا۔
ہمیں فرد کی سطح پر بھی اور بطور معاشرہ بھی اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں اور اداروں میں برداشت اور مکالمے کی فضا پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی ذہنی صحت کو سنجیدہ لینا ہوگا اور سب سے بڑھ کر خود پر قابو پانے کی مشق کرنی ہوگی۔ ورنہ یہ معاشرہ رفتہ رفتہ محض ایک ہجوم میں بدل جائے گا، جہاں انسانیت کے بجائے صرف وحشت، درندگی اور خون کی پیاس باقی رہ جائے گی۔

جواب دیں

Back to top button