Column

سیلاب کی تباہ کاری اور کشتی بانوں کی بے حسی

سیلاب کی تباہ کاری اور کشتی بانوں کی بے حسی
تحریر: رفیع صحرائی
کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔ دو چار مصیبتیں ساتھ لے کر آتی ہے۔ دریائے ستلج میں اس وقف شدید طغیانی ہے۔ دریا کے آس پاس رہنے والے لوگوں کو جس مصیبت اور تکلیف کا سامنا ہے اس کا اندازہ دور بیٹھے لوگ نہیں لگا سکتے۔ ان کی فصلیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ مکانات گر چکے ہیں یا گرنے کے قریب ہیں۔ کچھ لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بہت سے مال مویشی دریا کی لہروں کے سپرد ہو کر کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ ان لوگوں پر ایک افتاد یہ آئی ہوئی ہے سیلابی پانی کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں سانپ بھی بہہ کر آ رہے ہیں جو زندگی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ حکومتی افسران اور عوامی نمائندے سیلاب زدہ علاقوں کا بار بار دورہ کر رہے ہیں۔ حکومت پنجاب ہائی الرٹ ہے۔ ریسکیو 1122، محکمہ صحت، محکمہ پولیس، بلدیاتی ادارے اور پاک فوج اس وقت میدانِ عمل میں ہیں۔ سیاست دان ( اپنی مقامی ٹیموں کے ہمراہ) اور این جی اوز کے علاوہ سِول سوسائٹی بھی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے متحرک ہے۔ مذہبی تنظیمیں بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ہراول دستہ بنی ہوئی ہیں۔ صحافی حضرات لمحہ لمحہ صورتِ حال کی کوریج کر کے لوگوں کو حالات سے آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ یقیناً یہ جذبے قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کارِ خیر کا اجر عطا فرمائے۔
جس طرح پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں وہی کانٹوں والا کردار اس وقت ملاح حضرات یعنی کشتی بانوں نے اپنا رکھا ہے۔ ریسکیو کرنے والی سرکاری کشتیاں چھوٹی ہیں۔ وہ صرف سیلاب میں پھنسے ہوئے انسانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر سکتی ہیں۔ بھاری سامان اور مویشیوں کی منتقلی کا کام ان سے نہیں لیا جا سکتا۔ کشتی بان اس صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ مویشی اور گھریلو سامان منتقل کرنے کے لیے منہ مانگا کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ پتا چلا ہے کہ سیلاب میں گھرے ہوئے مختلف بھینیوں اور آبادیوں کے لوگوں کے سازوسامان اور مویشی اٹاری مرکز منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑا ’’ فلڈ ریلیف کیمپ‘‘ تک پہنچانے کے لیے ایک پھیرے کا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔ مویشیوں کا کرایہ یوں سمجھ لیں کہ پانچ بھینسوں کے بدلے ایک بھینس کا نذرانہ ان ابن الوقت، لالچی اور بے حِس ملاحوں کو دیا جا رہا ہے۔ ایک شخص بتا رہا تھا کہ اس سے ٹریکٹر منتقلی کا ایک لاکھ روپیہ مانگا گیا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سیلاب سے تباہ حال لوگوں کو یہ پرائیویٹ کشتیوں والے لٹیرے بن کر سرِعام لوٹ رہے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور کور کمانڈر لاہور سے گزارش ہے کہ اٹاری کے مقام پر فی الفور دو یا تین بڑے بیڑوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ لوگ مزید لُٹنے سے بچ سکیں۔ اس وقت حکومت پنجاب کے کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ سیلاب میں گھرے لوگوں کی املاک اور مویشیوں کی منتقلی کے انتظامات سرکاری طور پر کیے جائیں۔ فلڈ ریلیف کیمپ اٹاری مرکز منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑا کی نشان دہی ہم نے کر دی ہے۔ یقیناً باقی مقامات پر بھی یہی صورت حال ہو گی۔ صرف فوٹو سیشنز مسئلے کا حل نہیں۔ سیلاب زدگان کی عملی مدد کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button