سیلاب، بے رحم پانی کی یلغار

سیلاب، بے رحم پانی کی یلغار
شہر اقتدار سے
عابد ایوب اعوان
جولائی، اگست اور ستمبر وہ مہینے ہیں جب پاکستان میں بارشوں کے ساتھ ساتھ سیلابی صورتحال کا خدشہ سب سے زیادہ رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے سیلاب ہمیشہ اگست کے آخر یا ستمبر کے پہلے دو ہفتوں میں آئے۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ ابتدا خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے ہوئی، جہاں بادل پھٹے اور لمحوں میں بستیاں اجڑ گئیں۔ انسان، جانور، گھر، گاڑیاں اور پل سب کچھ بہہ گیا۔ ان پہاڑی علاقوں میں سیلابی ریلے صرف پانی ہی نہیں بلکہ پہاڑوں سے اترنے والے پتھروں اور لکڑیوں کو بھی ساتھ لاتے رہے۔ سوات، بونیر اور صوابی میں قیامت خیز مناظر تھے۔ آزاد کشمیر کے باغ، راولاکوٹ، کوٹلی اور کھوئی رٹہ بھی شدید متاثر ہوئے۔ ہنزہ، شگر اور بابو سر ٹاپ پر تباہی کے الگ مناظر سامنے آئے۔
یہ تمام صورتحال پانچ بڑی وجوہات کی طرف اشارہ کرتی ہی: دنیا میں تیزی سے بڑھتی ماحولیاتی تبدیلی، درختوں کی کٹائی اور جنگلات میں کمی، پہاڑوں پر کرشنگ کا بے تحاشا کام، آبی گزرگاہوں پر ہوٹلوں اور محلات کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر ناقص منصوبہ بندی۔
اسلام آباد اور راولپنڈی بھی اس یلغار سے محفوظ نہ رہ سکے۔ نالہ لئی نے پنڈی شہر کو ڈبو دیا، دریائے سواں اور کورنگ ندی نے نئی آبادیوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ سید پور ویلیج میں بارشوں نے تباہی مچائی۔ چکوال میں کلائوڈ برسٹ کے بعد دھرابی ڈیم ٹوٹ گیا، جس نے مقامی آبادی کو شدید نقصان پہنچایا۔
ابھی ہم شمالی اور وسطی پاکستان کے نقصانات کا حساب لگا ہی رہے تھے کہ کراچی میں بارشوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ سڑکیں دریا بن گئیں اور نظام زندگی درہم برہم ہو گیا۔ ادھر پنجاب میں ستلج، راوی اور چناب جیسے بڑے دریا بپھر گئے۔ مقامی ندی نالے بھی پیچھے نہ رہے: بئیں، بسنتر، ڈیک، ایک، بھیڈ، پلکو، توی اور نالہ بھمبر سبھی طغیانی کے ساتھ بہہ نکلے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پنجاب کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ اس سیلاب سے متاثر ہو گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پانی بھارت اور مقبوضہ کشمیر سے آیا، مگر اسے آبی جارحیت کہنا درست نہیں کیونکہ بارشیں اور کلائوڈ برسٹ سب سے زیادہ ہماچل پردیش اور مقبوضہ کشمیر میں ہوئے۔ ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقے، جہاں شملہ، دھرم شالہ اور ڈلہوزی جیسے سیاحتی مقامات ہیں، شدید بارشوں کی زد میں آئے۔ ان کے شہر منڈی کی مثال سامنے ہے جو تقریباً ڈوب گیا۔ ستلج، بیاس اور راوی وہاں سے نکل کر پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ بھارت نے ان دریاں پر کئی ڈیمز بنا رکھے ہیں مگر اس دفعہ پانی اتنا زیادہ تھا کہ انہیں ڈیموں کے سپل وے کھولنے پڑے۔
راوی کے کنارے بھارتی بند ٹوٹ گئے، مختلف ڈیموں سے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑا گیا، حتیٰ کہ مادھوپور ڈیم کے چار بڑے گیٹ بھی ٹوٹ گئے۔ اس صورتحال نے پنجاب میں پانی کا ریلا مزید سنگین بنا دیا۔ کشمیر سے داخل ہونے والا چناب بھی بے قابو ہو گیا۔ اگر بھارت بروقت اطلاع نہ دیتا تو شاید پاکستان میں جانی نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔
اصل سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے پاس ستلج، راوی اور چناب پر کوئی ڈیم موجود نہیں۔ ندی نالوں پر بھی بندوبست نہیں۔ جہاں سے سب سے زیادہ پانی داخل ہوتا ہے، یعنی نارووال، سیالکوٹ اور گجرات، وہاں پنجاب کا محکمہ آبپاشی مردہ حالت میں ہے۔ اس کے برعکس چین نے ہر اس مقام پر ڈیم تعمیر کیا ہے جہاں سے ایک میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کب تک ہم حالات کو قدرتی آفات کہہ کر نظرانداز کرتے رہیں گے۔ کب تک سیلاب ہر سال ہماری محنت اور مستقبل کو بہاتا رہے گا؟ ہمیں فوری طور پر ڈیموں، جدید انفراسٹرکچر اور ماحول دوست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
بصورت دیگر ہمیں ناشاد اورنگ آبادی کا شعر یاد رکھنا چاہئے کہ
اس کی مرضی پہ ہے موقوف جسے جو دے دے
کم ہی ہیں جن کو خدا فکر رسا دیتا ہے





