Column

غزہ کے بچوں کی قبروں پر گریٹر اسرائیل کا قیام۔۔۔

غزہ کے بچوں کی قبروں پر گریٹر اسرائیل کا قیام۔۔۔
کالم نگار: امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
گریٹر اسرائیل کا تصور کوئی نیا نہیں بلکہ صیہونی تحریک کے آغاز سے ہی یہ نظریہ پروان چڑھتا آ رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اسرائیل دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقوں پر قبضے کے خواب دیکھتا ہے۔ اس منصوبے کا مطلب صرف زمینی توسیع نہیں بلکہ پورے خطے کی ثقافتی، مذہبی اور نسلی شناخت کو مٹا دینا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے جبراً بے دخل کرنا، ان کے گھروں کو مسمار کرنا، ان کے تاریخی اور مذہبی مقامات پر ناجائز قبضہ جمانا، یہ سب گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہے۔ دنیا اس وقت تاریخ کے ایک نہایت نازک مرحلے سے گزر رہی ہے جہاں بین الاقوامی اصول، انسانی حقوق اور عالمی قوانین کو طاقتور قوموں کی خود غرض پالیسیوں اور سامراجی مفادات کے تحت پامال کیا جا رہا ہے۔ فلسطین اور خاص طور پر غزہ، اس وقت ظلم، استحصال اور تباہی کی ایسی درد ناک تصویر پیش کر رہا ہے جس پر ہر باضمیر انسان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ غزہ میں معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قتل عام اس بات کی گواہی ہے کہ اسرائیل کی نسلی اور مذہبی انتہا پسند پالیسیوں نے ساری حدود پار کر لی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بچوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم ’’ سیو دی چلڈرن‘‘ کی سربراہ اینگر آشنگ نے دنیا کو جھنجھوڑ دینے والا انکشاف کیا کہ غزہ کے معصوم بچے بھوک اور قحط کی وجہ سے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بچے اتنی کمزور ہو چکے ہیں کہ اب رونے تک کی طاقت ان میں باقی نہیں رہی۔
اینگر آشنگ نے واضح کیا کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی طرف سے اعلان کی گئی قحط کی کیفیت محض کوئی تکنیکی اصطلاح نہیں بلکہ ایک ہولناک حقیقت ہے۔ ان کے بقول جب کھانے کو کچھ نہ ملے تو بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو کر پہلے بے حال ہوتے ہیں اور پھر انتہائی اذیت ناک انداز میں دم توڑ دیتے ہیں۔ یہی ہے قحط کا اصل مطلب ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیفیت چند ہفتوں میں جسم کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے، جسم اپنی بقا کے لیے خود ہی اپنے پٹھے اور اندرونی اعضاء کو توڑنا شروع کر دیتا ہے اور پھر موت واقع ہو جاتی ہے۔ اینگر آشنگ نے مزید کہا کہ ہمارے علاج گاہوں میں موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ بچے اب بول سکتے ہیں نہ رو سکتے ہیں۔ وہ بس خاموشی سے پڑے رہتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں۔ ان کے کمزور جسم بھوک اور بیماری کے بوجھ سے گھل کر ختم ہو رہے ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری مشترکہ بیان میں سلامتی کونسل کے 14اراکین نے، امریکہ کو چھوڑ کر، غزہ میں قحط کی سنگین صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا عالمی انسانی قانون کے تحت بالکل ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ نے 22اگست کو باضابطہ اعلان کیا تھا کہ غزہ کے شمالی علاقے میں قحط پھیل چکا ہے جہاں شہر غزہ اور اس کے گرد و نواح شامل ہیں۔ یہ علاقہ پورے غزہ کا بیس فیصد بنتا ہے۔ ادارے کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ستمبر کے آخر تک یہ قحط دیر البلح اور خان یونس تک پھیل سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق غزہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ فلسطینی ایسے ہیں جو ’’ انتہائی ہلاکت خیز بھوک‘‘ کا سامنا کر رہے ہیں جو براہ راست قحط اور موت کے زمرے میں آتا ہے۔ قابض اسرائیل کی فوج نے غزہ کی پٹی پر اپنی نسل کشی کی جنگ کو جاری رکھا رکھا ہوا ہے فضائی اور زمینی بمباری، توپخانے کی گولہ باری اور بھوک سے مرنے والے شہریوں کے خلاف اندھا دھند گولیاں برسانے کا یہ سلسلہ امریکی سیاسی و عسکری حمایت کے سائے میں ہو باقاعدگی سے جاری ہے جبکہ عالمی برادری کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی اس وحشت کو اور بڑھا رہی ہے۔
وزارت صحت کے مطابق اب تک قابض اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں 62 ہزار 895 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 58 ہزار 927 زخمی ہو چکے ہیں۔ دس ہزار سے زائد افراد ملبے تلے لاپتہ ہیں جبکہ بھوک اور قحط کی وجہ سے 313 فلسطینیوں کی زندگیاں ختم ہو گئیں جن میں 119 معصوم بچے شامل ہیں۔قابض اسرائیل نے معصوم بچوں کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ شہداء میں 19 ہزار بچے شامل ہیں جن میں سے 18 ہزار وہ ہیں جو ہسپتالوں میں پہنچے۔ اسی طرح 14 ہزار 500 خواتین بھی شہید ہو چکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی فوج سب سے زیادہ بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہی ہے۔مارچ 2025 کو جنگ بندی کے معاہدے سے مکر جانے کے بعد سے اب تک قابض اسرائیل نے 11 ہزار 50 فلسطینی شہید اور 46 ہزار 886 کو زخمی کیا۔27 مئی 2025 کو امدادی مراکز کو قتل گاہوں میں تبدیل کرنے کے بعد سے اب تک 2 ہزار 158 فلسطینی شہید اور 15 ہزار 843 زخمی ہو چکے ہیں۔تجزیہ کار غزہ میں نسل کشی کو ایک منصوبے پر عمل درآمد کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بہر حال دنیاکے لیے اب یہ خطرے کی گھنٹی ہے، اس لیے کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بہت پرانا ہے اور اسرائیل اس پر کافی عرصے سے عمل پیرا ہے، تاہم اب ان ممالک کو بیدار ہو جانا چاہیے جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کرنے جا رہے تھے.غزہ میں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے، مگر کوئی بین الاقوامی ادارہ اسرائیل کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی دہرا معیار آج کے عالمی نظام کو بے نقاب کرتا ہے۔ انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں محض کمزور اقوام کو دبا کر رکھنے کے ہتھیار بن چکی ہیں، جب کہ طاقتور ریاستوں کو ہر ظلم کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ اس وقت مسلم دنیا کو اپنے ذاتی اختلافات، علاقائی کشیدگیوں اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر فلسطین کے مسئلے پر متحد ہونا ہو گا۔ یہ وقت ہے کہ دنیا فیصلہ کرے کہ وہ ظلم کے ساتھ کھڑی ہے یا مظلوم کے ساتھ۔ اگر آج فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا تو کل کو یہی ظلم دنیا کے دیگر خطوں تک پھیل جائے گا۔ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ اسرائیل کی مسلسل جارحیت، بین الاقوامی قوانین کی پامالی اور عالمی برادری کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا ایک خطرناک سمت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھانے والے یاد رکھیں، گریٹر اسرائیل کی بنیاد غزہ کے بچوں کے قبرستان پر رکھی جا رہی ہے ۔

جواب دیں

Back to top button