موروثیت

موروثیت
محمد مبشر انوار
تاریخ انسانی کو بجا طور دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک وہ تاریخ ہے جو قبل از اسلام ہے جبکہ دوسری وہ تاریخ ہے جو بعد از اسلام ہے،قبل از اسلام کی تاریخ میں کئی ایک سلطنتیں گزری ہیں او ران سلطنتوں کی بنیاد بہرطور شاہانہ رہی ہے جس میں شاہی خاندان ہی حکمران رہے ہیں جبکہ بعد از اسلام طرز حکمرانی کا تصور ہی بدل گیا اور اسلامی طور طریقوں کے مطابق بہرطور حق حکمرانی متقی و پرہیز گار کا انتخاب بذریعہ شوری طے پایا۔ یہ الگ بات کہ اس اصول کو بہت زیادہ طوالت نصیب نہیں ہوئی اور انسان اپنی فطری جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ،اس آفاقی اصول سے روگردانی کرتا آرہا ہے تاآنکہ مغرب /غیر مسلموں نے حکمرانوں کا انتخاب براہ راست جمہور سے کرنا شروع نہیں کر دیا، جسے انہوں نے جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔ جمہوریت میں کوئی بھی شخص،جمہوری عمل کا حصہ بنتے ہوئے، جمہوری روایات کے تحت ملک کے اعلی ترین عہدے تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس میںقیادت کی اہلیت و قابلیت ہو،فہم و دانش ہو،اوصاف و کردار ہو،عوام الناس میں مقبول ہو،ملکی مفادات کا تحفظ کرنا جانتا ہو،ایک نظام کے تحت مختلف مدارج کے زینے طے کرتا اعلی ترین منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ مغربی دنیا میں جمہوری نظام اپنے تمام تر خواص کے ساتھ رائج ہے اور عوام الناس کا اپنا کردار ،خواہ کچھ بھی ہو لیکن قیادت کے لئے انہیں ایک ایسا حکمران چاہئے،جس کا کردار بہرطور بے داغ ہو اور وہ اپنے ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہو بصورت دیگر کسی بھی جرم کے شائبہ کے امکان پر بھی اس کا کڑا مواخذہ نظام کے اندر موجود ہے اور عوامی رائے کی بنیاد پر اس کو نہ صرف ہٹایا جاسکتا ہے بلکہ اس کے جرم پر اسے سخت ترین سزا بھی دی جاتی ہے۔ جمہوری نظام کے حسن کے مطابق ،اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا ہے اور تنقید برائے تنقید سے گریز کیا جاتا ہے،بلاوجہ ٹانگیں نہیں کھینچی جاتی اور نہ ہی اکثریت کا اعتماد کھونے پر اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے اوچھے اور غیر جمہوری روئیے اختیار کئے جاتے ہیں بلکہ پروقار انداز میں اقتدار سے الگ ہو کر،عوامی اعتماد کے حامل کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا ہے۔ آج جمہوری نظام،خواہ پارلیمانی یا صدارتی ،یک جماعتی یا کثیر جماعتی،دنیا بھر میں جہاں بھی لغوی معنوں میں رائج ہے،عوام الناس اس کے ثمرات سے لطف انددوز ہو رہی ہے ،ملک و وقم خوشحال ہیں اور کم ازکم انہیں یہ یقین ہے کہ ان کے حقوق سلب نہیں ہوتے تاہم مستثنیات ہر معاشرے کا حصہ ہیں۔دوسری طرف حکمرانوں کو بذریعہ شوری ،معاشرے کے صاحب رائے و متقی و پرہیز گار افراد پر مشتمل ایسا گروہ کہ جس کی نیک نیتی و کردار پر شک کرنے کی بھی گنجائش نہ ہو اور وہ اسلام کے تزکیتہ الشہود کے معیار پر پورا اترتے ہوں،منتخب کرنے کی ابتداء کرنے والی امت اپنی شاہراہ سے بھٹک کر دوبارہ اسی روش پر چل نکلی کہ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہی کا قانون دوبارہ لاگو دکھائی دیتا ہے۔ حتی کہ پاکستان کے ساتھ آزادی حاصل کرنے والا ہماری پڑوسی مگر اصلا بد نیت بھارت ،جمہوری روایات کی پاسداری کرتے کرتے آج کس مقام پر ہے، اس کا اندازہ اس کے موجودہ وزیراعظم سے لگایا جاسکتا ہے ،جو ایک معمولی سیاسی کارکن کی حیثیت سے ترقی کرتے کرتے، آج دنیا کی بڑی جمہوری ریاست کے وزیراعظم ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ہر عمل سے ان کی انتقامی سیاست کی بو آتی ہے،ہوس اقتدار بلکہ بنیاد پرستانہ روش،اتنا بڑا عہدہ حاصل کرنے کے باوجود ختم نہیں ہوئی۔
پاکستان کا قیام بھی ایک ایسی ہستی کے طفیل معرض وجود میں آیاجو انتہائی اجلے کردار کے مالک تھے اور اس نوزائیدہ ریاست کے خدوخال خالصتا جمہوری طور طریقوں پر استوار کرنا چاہتے تھے،ایسا جمہوری امتزاج کہ جس میں اسلامی روایات کی پاسداری بھی یقینی ہو لیکن بدقسمتی سے ان کا ایک قول انتہائی معروف ہے کہ جس میں انہوں نے واضح اور واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں تو دوسری طرف انہوں نے جو معیار طے کئے، اس سے واضح تھا کہ گو ان کی بہن فاطمہ جناح تحریک آزادی میں ان کے ہمرکاب رہی لیکن ریاستی وسائل کے استعمال کی انہیں بھی اجازت نہیں تھی تو اپنی جانشینی کے لئے بھی قائداعظمؒ نے اپنی بہن کو نامزد نہیں کیا۔ تاہم ملکی سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے ،بعد ازاں محترمہ فاطمہ جناح نے کارزار سیاست میں قدم رکھا اور آمر کو عوامی حمایت کی بدولت اس کی اوقات دکھا دی لیکن آمر اور اس کے حواریوںنے ،نہ صرف محترمہ فاطمہ جناح پر بہتان طرازیوں کی بھرمار کی بلکہ بابائے قوم کے ساتھ تحریک آزادی میں بھرپور شمولیت کے باوجود انہیں ’’ غدار‘‘ تک کہا گیا،ان کی ذات کے حوالے سے ان پر انتہائی رکیک اور گھٹیا زبان درازی کی گئی،گوجرانوالہ کے غلام دستگیر خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان کی جس طرح تضحیک کی،وہ ہماری سیاسی تاریخ کی چاپلوسی کی بدترین مثال ہے۔ دوسری طرف تحریک پاکستان کے وہ کارکن ،جو محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے،انہیں بھی نہ صرف تضحیک کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کو بھی ’’ غداری‘‘ کے سرٹیفکیٹ بانٹے گئے،جیسے حب الوطنی کا ٹھیکہ صرف آمر اور اس کے حواریوں کے پاس ہی تھا،باقی اس ملک کا ہر وہ شہری جو آمریت کے خلاف تھا،غدار ٹھہرا۔ بدقسمتی سے ’’ غداری‘‘ کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا جو سلسلہ آمر اول کے دور سے شروع ہوا تھا وہ ہنوز جاری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ آج سول آمریت کا دوردورہ سمجھیں یا سویلین ،آمریت کو اپنا کندھا پیش کئے ہوئے ہیں ،یا سویلین کی اپنا اتنا قد کاٹھ ہی نہیں کہ اس حقیقت کو سمجھ سکیں،یا ان کے اپنے کرتوت اس قدر گھناؤنے ہیں کہ اگر اپنے کندھے پیش نہ کریں تو ان کندھوں پر ٹکی گردنیں باقی نہیں رہتی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر ،ان حکمرانوں کی کوتاہ اندیشیاں ، کل کے ان کے اپنے مداحین کی چیخیں بھی نکلوا رہی ہیں تاہم آج بھی معدودے چند ایسے ہیں جو ہنوز ان کی گن گانے میں مشغول ہیں لیکن ان کی تعداد دن بدن کم ہو رہی ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی یہاں جمہوری نظام کو اپنے تئیں دفنا کر ملک میں آمریت کی ایسی روایت ڈالی گئی کہ آج تک ملک آمریت کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکتا بظاہر آج جمہوریت ہے لیکن درحقیقت آمریت اپنی پوری طاقت کے ساتھ بروئے کار نظر آتی ہے وہ خواہ سیاسی رہنما کی شکل میں ہو یا پس پردہ کسی طاقتور کی پر چھائیں، وگرنہ دہائیوں سے سیاست کرنے والے خواجہ آصف کو موجودہ نظام کو ہائبرڈ نہ کہنا پڑتا۔ ایسی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں کہ جس میں حکمران اتحاد ہی کی جانب سے واضح طور پر اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ حکمران جماعت نے اس سمجھوتے میں اپنی سیاست ہی ڈبو دی ہے، دفن کر دی ہے کہ فارم 47پر حکومت بنانے کے بعد، رہی سہی جو خیر اب باقی نہیں ہے،اخلاقی ساکھ بھی کھو چکی ہے۔حد تو یہ ہے کہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کی درمیان ایک دوڑ ہے کہ ایک اقتدار اپنے خاندان سے باہر نہیں جانے دیا جا سکتا اور انہیں اپنی جماعتوں میں کوئی بھی ایسا قدآور سیاسی رہنما میسر نہیں جسے وہ اقتدار کے قابل سمجھیں،گو کہ پیپلز پارٹی نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم ضرور بنوایا لیکن اس کے بدلے میں عہدہ صدارت لے اڑی اور اسی عہدہ صدارت کو بچاتے بچاتے یوسف رضا گیلانی نہ صرف اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ پانچ سال کے لئے نااہل بھی ہوئے۔تو دوسری طرف نواز شریف پانامہ میں نااہل ہونے پر ،شہباز شریف کی نامزدگی کرنے کے باوجود شاہد خاقان عباسی کو محدود مدت کے لئے وزیراعظم بنانے پر مجبور ہوئے جبکہ بعد ازاں وزارت عظمیٰ پھر اپنے ہی خاندان کو نوازی جبکہ وزارت اعلیٰ کے لئے حمزہ شہباز کی تمام تر کوششیں و کاوشیں ادھوری رہیں اور فقط اڑھائی ماہ کے لئے وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھ پائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی اگر مریم نواز کو وزارت عظمیٰ کے لئے ’’ قبول‘‘ کیا گیا تو ممکنہ طور پر وزارت اعلیٰ حمزہ شہباز کو ملے یا زیادہ امکان ہے کہ مریم نواز کی اپنی اولاد کو اس منصب کے لئے تیار کر لیں بشرطیکہ انتخابی طریقہ کار فارم 47طرز کا رہے۔ علاوہ ازیں! جمعیت علماء اسلام یا اے این پی کا حال بھی یہی ہے کہ وہ بھی موروثی طرز سیاست پر ہی گامزن ہیں جبکہ دیگر جماعتوں میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ایسی جماعت ہے جہاں موروثیت کی کوئی جگہ نہیں یا ایم کیو ایم کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ موروثیت کی بنیاد پر سیاست نہیں کرتی گو کہ اس کی دیگر وجوہ بھی تھی لیکن اب تو خیر ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر چکا اور اس کی سیاست بھی آخری دم پر دکھائی دیتی ہے۔ سب سے زیادہ توقعات تحریک انصاف سے تھی کہ یہ سیاسی جماعت موروثیت کے خلاف موثر طریقے سے روبہ عمل آئے گی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کو قید کرنے کے باوجود مقتدرہ اس کو جھکانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوئی، عمران خان کو توڑنے کے لئے اس کی اہلیہ کو بھی قید میں رکھا گیا ہے، اس کی ملاقاتوں پر سختیاں ہیں، اس کی سیاسی جماعت کے رفقاء کی اکثریت کو توڑا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان اپنے موقف پر سختی کے ساتھ کھڑا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے غیر سیاسی خاندان کو بھی پابند سلاسل کرکے ایک طرف عمران خان کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف اسی سیاسی جماعت کو بھی موروثیت کی جانب جبرا دھکیلا جارہا ہے، نجانے کب تک پاکستان میں ایسی بے دست و پا سیاست جاری رہے گی اور کب تک عوام شخصیت پرستی کے زیر اثر رہیں گے۔





