3ذرا سوچئے

3ذرا سوچئے
قبروں کی زبان اور رسومات کا فلسفہ
امتیاز احمد شاد
انسان کی زندگی ایک سفر ہے، جو پیدائش سے شروع ہو کر موت پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موت محض انجام نہیں بلکہ ایک نئے باب کی شروعات بھی ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب اور ہر معاشرہ اس لمحے کو مختلف انداز سے دیکھتا ہے۔ کہیں اسے غم کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے تو کہیں خوشی کے ساتھ، کہیں خاموشی اور سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے تو کہیں رقص، موسیقی اور جشن کے ذریعے منایا جاتا ہے۔ یہی تنوع انسانی ثقافت کو خوبصورت بھی بناتا ہے اور منفرد بھی۔
یورپ میں قبریں صرف پتھر اور مٹی کا ڈھیر نہیں ہوتیں بلکہ تاریخ، فن اور یادوں کا حسین امتزاج ہوتی ہیں۔ فرانس، اٹلی، برطانیہ اور شمالی یورپ کے قبرستانوں میں جا کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی کھلی کتاب کے اوراق الٹ رہے ہوں، جس میں ہر صفحہ ایک نئے انسان کی کہانی سناتا ہے۔ ان قبروں پر کندہ اشعار، سنگ تراشی سے بنی مورتیاں اور رنگین پھول انسان کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ مرنے والا اب بھی اپنی موجودگی کا حصہ ہے۔ سفید پتھر سکون اور پاکیزگی کی علامت ہوتے ہیں جبکہ گلاب کے پھول محبت کی وہ خوشبو بکھیرتے ہیں جو وقت کے ساتھ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
پیرس کا مشہور قبرستان ( فادر لایز) اس کی بہترین مثال ہے۔ یہاں نہ صرف عام لوگ دفن ہیں بلکہ دنیا کے بڑے شاعر، فلسفی اور فنکار بھی اپنی آخری آرام گاہ پا چکے ہیں۔ ان کی قبروں پر لوگ اب بھی آ کر پھول رکھتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور اپنی تصویریں کھنچواتے ہیں۔ ان کو تصور ہے کہ یہ صرف ایک قبر نہیں بلکہ ایک زندہ یادگار ہے جو بتاتی ہے کہ موت بھی انسان کو فن، محبت اور یادوں سے الگ نہیں کر سکتی۔
اٹلی میں قبرستان اکثر چھوٹے گائوں کے کنارے واقع ہوتے ہیں، جہاں قبروں پر سنگ مرمر کی کاریگری اور مذہبی مجسمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ برطانیہ میں پُرانی قبروں پر کائی جمی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جو وقت کے گزرنے کی خاموش گواہی دیتی ہے۔ شمالی یورپ کے کچھ علاقے اپنی سادگی کے لیے مشہور ہیں، وہاں قبروں پر زیادہ نقش و نگار نہیں ہوتے بلکہ گھاس کی نرم چادر اور سفید پتھروں کا سکون ہر دیکھنے والے کو موت کو ایک پرامن نیند کے طور پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن یورپ ہی نہیں، دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی موت کے بعد کی رسومات انسان کی تخلیقی سوچ اور عقائد کا آئینہ ہیں۔ میریشس میں مرنے والے کو الوداع کہنا غم کا نہیں بلکہ خوشی کا لمحہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ڈانسنگ فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے، جہاں موسیقی، رقص اور قہقہوں کے ذریعے مرنے والے کی زندگی کا جشن منایا جاتا ہے۔ یہ رسم دکھ کو خوشی میں بدلنے کی ایک انوکھی کوشش ہے۔
تائیوان میں گھاس اور خوشبودار لکڑیاں جلائی جاتی ہیں تاکہ دھواں روح تک پہنچے اور اسے پاکیزگی و سکون نصیب ہو۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے زندہ اور مردہ کے درمیان دھوئیں کی صورت میں ایک نازک رشتہ قائم ہو رہا ہو۔ انڈونیشیا کے کچھ علاقوں میں مرنے والے کو فوراً دفنانے کی بجائے خاص کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ خاندان والے ان کے ساتھ روزمرہ باتیں کرتے ہیں، انہیں کپڑے پہناتے ہیں اور تہواروں پر ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہ روایت مرنے والے کو ہمیشہ قریبی ساتھی کے طور پر رکھنے کی علامت ہے۔ میکسیکو کا ( ڈے آف دی ڈیڈ ) دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہر سال نومبر میں لوگ اپنی قبروں کو رنگین پھولوں، مٹھائیوں اور روشنیوں سے سجاتے ہیں۔ گلیوں میں جلوس نکلتے ہیں، لوگ چہروں پر ڈیزائن بناتے ہیں اور مرنے والوں کے ساتھ ایسا جشن مناتے ہیں جیسے وہ اب بھی ان کے درمیان موجود ہوں۔ مغربی افریقہ میں موت کے بعد پارٹی منعقد کی جاتی ہے۔ یہاں ڈھول کی تھاپ اور ناچ کے ساتھ مرنے والے کی زندگی کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ جشن مرنے والے کے لیے احترام اور زندہ لوگوں کے لیے حوصلے کا ذریعہ ہے۔
دنیا کے کچھ حصوں میں موت کے بعد کی رسومات سننے والے کو حیران کر دیتی ہیں۔
بھارت کے کچھ قبائل میں یہ رواج ہے کہ مردے کے جسم کے اعضا کو توڑ دیا جائے تاکہ اس کی روح دوبارہ جسم میں واپس نہ آئے۔ یہ رسم خوف اور عقیدے کا امتزاج ہے۔ نیپال میں بعض علاقوں میں مردوں کو جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ قدرتی طور پر جانور اور پرندے انہیں کھا جائیں۔ یہ رسم اس عقیدے پر مبنی ہے کہ انسان بھی فطرت کا حصہ ہے اور اسے دوبارہ اسی میں لوٹ جانا چاہیے۔ فلپائن کے کچھ قبائل میں مسلسل رونے اور چیخنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اونچی آوازوں میں رونا مردے کی روح کو سکون پہنچاتا ہے اور دکھ کی شدت کو کم کرتا ہے۔ یہ تمام رسومات ایک بات واضح کرتی ہیں کہ انسان موت کو صرف ایک اختتام نہیں سمجھتا بلکہ اسے زندگی کے اگلے مرحلے کے طور پر دیکھتا ہے، اور ہر معاشرہ اپنی روایات کے ذریعے اس لمحے کو یادگار بناتا ہے۔
اگر ہم گہرائی میں سوچیں تو یہ تمام رسومات ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ موت انسان کو جسمانی طور پر جدا کرتی ہے لیکن یادوں اور محبت کے رشتے کو کبھی توڑ نہیں پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے قبر پر پھول رکھے جائیں، دیے جلائے جائیں، ڈھول بجائے جائیں یا رقص کیا جائے، مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ مرنے والے کو بھلایا نہ جائے اور زندہ لوگ اپنی جذباتی وابستگی قائم رکھ سکیں۔ یورپ کی خوبصورت قبریں اور دنیا کے مختلف خطوں کی انوکھی رسومات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ موت کا سامنا کرنے کا کوئی ایک طریقہ نہیں۔ کوئی اسے خاموشی اور سکون سے قبول کرتا ہے تو کوئی جشن اور خوشی کے ساتھ، لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے احترام، یاد اور محبت۔ زندگی کا سفر ختم ہونے کے بعد انسان کی کہانی قبروں، رسومات اور یادگاروں کے ذریعے زندہ رہتی ہے۔ یورپ کے فنکارانہ قبرستان ہوں یا میکسیکو کے رنگین جلوس، انڈونیشیا کے کمرے ہوں یا افریقہ کے جشن یہ سب انسانی تخیل، عقائد اور محبت کے مختلف رخ دکھاتے ہیں۔ آخرکار، موت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل اہمیت جسم کی نہیں بلکہ ان لمحوں کی ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ گزارتے ہیں، اور ان یادوں کی ہے جو ہمارے جانے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔





