CM RizwanColumn

جگائے گا کون؟

جگائے گا کون؟
مودی ضد کے سیلاب میں بہہ گیا
تحریر: سی ایم رضوان
ایک امریکی اخبار نے اپنے تازہ ترین تجزیہ میں اقرار کیا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی کے معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ردعمل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسا مشتعل کیا تھا کہ امریکی حکومت کی نظر میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان پسندیدہ ملک کا درجہ اختیار کر گیا۔ اس امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں بھارت کئی لحاظ سے ٹرمپ انتظامیہ کی قربت میں رہا۔ فوجی حکمت عملی بنانے والے بھی انڈو پیسیفک علاقے میں بھارت کو خصوصاً چین کے خلاف چوکیدار قرار دیتے رہے جبکہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے پاکستان کا خاطر خواہ امیج نہیں تھا۔ مذکورہ امریکی اخبار کے مطابق کانگریس سے پہلے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی ستائش سے صورت حال بدلنا شروع ہوئی اور واشنگٹن میں پاکستان کی وکالت کرنے والے نئے چہرے سامنے آنے لگے۔ اخبار نے یہ بھی لکھا کہ پہلگام واقعی کا الزام لگا کر بھارتی وزیراعظم نے پاکستان پر حملہ کیا تو وہ بھارتی فوج کی برتری دکھانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے تاہم پاکستان کی جانب سے بھارت کے کئی طیارے مار گرائے جانے کے سبب اس کے بڑی حد تک منفی اثرات سامنے آئے۔ اخبار کا موقف ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی میں صدر ٹرمپ نے کردار ادا کیا اور دونوں ملکوں پر زور دیا کہ کشیدگی ختم کریں۔ پاکستان نے نہ صرف بات مان لی بلکہ بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ کی ستائش کی اور انہیں نوبیل امن انعام کے لئے نامزد بھی کر دیا۔ اس طرح ٹرمپ کو عظمت ملی جبکہ بھارت نے اس بات کی ہی تردید کر دی کہ امن قائم کرنے میں صدر ٹرمپ نے کوئی کردار ادا کیا تھا۔ اخبار نے لکھا کہ پاک بھارت تنازع کے بعد نریندر مودی کا دورہ واشنگٹن بھی ممکن نہ ہو سکا جبکہ صدر ٹرمپ نے پاکستانی فوج کے سب سے طاقتور شخص فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاس میں لنچ پر میزبانی کی۔ اخبار کے مطابق اکثر ہنگامہ خیزی کے شکار خطے میں آرمی چیف عاصم منیر کا احترام ایک ایسے شخص کے طور پر کیا جاتا ہے جو مشکل حالات میں بھی انتہائی پُرسکون اور باصلاحیت رہتے ہیں۔ اخبار نے لکھا کہ اسٹریٹیجک تاثر میں جنرل عاصم منیر کی مستقل مزاجی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو متاثر کیا اور صدر ٹرمپ سے ان کا تعلق بڑھا اور ایک ماہ بعد ہی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ انتہائی غیر معمولی اقتصادی سمجھوتے کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ روس سے تیل خریدنے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر کہیں زیادہ ٹیرف عائد کر دیا۔ اخبار کے مطابق یہ سوال اب بھی قائم ہے کہ پاک، امریکا تعلقات کتنے پائیدار ہیں کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ تو شاید اسلام آباد کو پسندیدگی سے دیکھ رہی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ واشنگٹن میں اس بات پر ادارہ جاتی اتفاق رائے ہے یا نہیں۔ اخبار کے مطابق مودی پاکستان سے بدلہ لینے کے لئے سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھ سکتے ہیں، مودی کی جانب سے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بی جے پی کو بہار کے الیکشن میں کڑے امتحان کا سامنا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشتگرد قرار دیا جانا مودی کو وارننگ ہے کہ وہ پاکستان میں مداخلت سے باز رہے۔ اخبار نے لکھا کہ اس صورتحال میں یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ آیا نریندر مودی دنیا کے طاقتور ترین شخص سے جھگڑا مول لیتے ہیں یا نہیں۔ اخبار کے مطابق کم یاب معدنی ذخائر یا آئل اینڈ گیس سیکٹر میں پاک امریکا تجارتی تعلقات وسیع ہوتے ہیں تو بھارت کے مقابلے میں پاک امریکا تجارت کا حجم تبدیل ہو سکتا ہے، اخبار کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاس کی توجہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جانب ہے اور اب یہ اہم ہوگا کہ پاکستان اپنے معاشی اور فوجی پتے کیسے کھیلتا ہے تاکہ ٹرمپ پاکستان سے خوش رہیں۔
دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہٹ دھرمی، بے حسی، ظلم و بربریت اور اصول دشمنی پر مبنی حکومتی پالیسیوں نے آج اس کو ذلت، ذلالت، شرمندگی، شکست اور ناکامی کے سیلاب میں ڈبو دیا ہے۔ صرف کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں پر ہی نہیں مودی سرکار نے پہلے روز سے ہی ہندوستان کی ایک بڑی اور نسبتاً دلیر کمیونٹی یعنی سکھ قوم کو بھی اپنی مخالفت، مظالم اور نفرت کا نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ جب مودی حکومت نے ستمبر 2020ء میں تین زرعی قوانین متعارف کرائے تھے تو ان قوانین کے بارے میں حکومت کا دعویٰ تھا کہ ان اصلاحات سے زراعت میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا لیکن بھارتی کسانوں نے ان قوانین کو مسترد کر دیا تھا اور بھارت کی تاریخ کا طویل ترین احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اس دوران کسان تنظیموں کے نمائندوں سے مذاکرات کے متعدد دور ہوئے لیکن مودی حکومت احتجاج ختم کرانے میں ناکام رہی۔ جس پر کسانوں نے دارالحکومت دہلی کی جانب آنے والے راستوں پر احتجاجی دھرنا دیا جو قوانین واپس لینے کے اعلان کے باوجود کئی ہفتوں تک جاری رہا اگرچہ وزیرِ اعظم مودی نے ان قوانین کو واپس لینے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ کوشش کے باوجود وہ بعض کسانوں کو ان قوانین کے فوائد پر قائل نہ کر سکے لیکن دراصل یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب بھارت کی پانچ اہم ریاستوں اتر پردیش، پنجاب، اتر کھنڈ، ہماچل پردیش اور گوا میں انتخابات ہونے والے تھے یعنی اس عمل کے پیچھے بھی مودی کی مفاد پرستی کار فرما تھی کیونکہ پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں زرعی قوانین کی مخالفت کی جا رہی تھی اور حکمراں جماعت بی جے پی کو زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاج کی وجہ سے ان ریاستوں میں دبائو کا سامنا تھا مذکورہ ریاستوں میں عنقریب ہونے والے انتخابات اور 2024ء کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتی تھی اس لئے وزیرِ اعظم مودی نے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک کے یومِ پیدائش کے موقع پر کیا گیا نیز یہ کہ نئی دہلی کی سرحد پر دھرنا دینے والے کسانوں میں ایک بڑی تعداد سکھوں کی تھی جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔
مودی حکومت نے 2019ء میں شہریت کا قانون بھی پاس کیا تھا۔ اس قانون کے ناقدین کے مطابق بھارت کے پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو بھارت کی شہریت نہ دینے سے متعلق یہ قانون اس کے سیکولر امیج کو مجروح کرتا ہے۔ اس قانون کے مطابق 2015ء سے قبل افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت منتقل ہونے والے بدھ، مسیحی، ہندو، جین، پارسی اور سکھ بھارت کی شہریت کے لئے اہل قرار دیئے گئے تھے۔ اس قانون سازی کے بعد نئی دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں احتجاج اور دھرنے ہوئے۔ بالخصوص نئی دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے دھرنے کو مقامی اور عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل ہوئی اور مودی عالمی سطح پر بدنام ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے بھی اس شہریت قانون کو ’’ اپنی بنیادی نوعیت کے اعتبار سے امتیازی‘‘ قرار دیا تھا۔ بھارت میں مسلمان تنظیموں کے احتجاج کے باوجود شہریت کا یہ متنازع قانون واپس نہیں لیا گیا۔
ان دنوں جبکہ پاکستان اور بھارت میں سیلاب کا زور ہے۔ بھارت جغرافیائی طور پر پاکستان سے اونچائی میں واقع ہے اس لئے اس کے دریاں اور ڈیموں کا پانی قدرتی طور پر پاکستان کا رخ کرتا ہے یہ پاک بھارت کا شروع سے ہی مسئلہ رہا ہے کہ بھارت پاکستان کی جانب بلاضرورت اور بغیر بتائے پانی چھوڑ دیتا ہے۔ بھارت کی اس آبی جارحیت کا ان دنوں زیادہ خدشہ تھا کیونکہ وہ ان دنوں دس مئی کی پاکستان سے عبرت ناک شکست کے زخم چاٹ رہا ہے۔ لہٰذا بھارت نے اپنی فطری منافقت اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہی کیا جس پر شرومنی اکالی دل امرتسر کے رہنما کلویندر سنگھ چیمہ نے بھارت کی جانب سے کرتار پور میں اچانک پانی چھوڑے جانے کو آبی جارحیت قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کو معلوم تھا کہ دریا کے اُس پار سکھوں کا مقدس مقام گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور موجود ہے، اس کے باوجود جان بوجھ کر پانی چھوڑا گیا تاکہ سکھ مذہبی مقام کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ کلویندر سنگھ چیمہ کے مطابق گوردوارے کے کئی کمروں میں پانچ، پانچ فٹ پانی بھر گیا، جو نہ صرف سکھوں کی مذہبی آزادی بلکہ ان کے جذبات کی بھی توہین ہے۔ انہوں نے بھارت کے حالیہ ’’ آپریشن سندور‘‘ کو مکمل ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج نے لاہور میں سکھوں کے مقدس مقام پر حملے کی کوشش کی تھی مگر پاکستان آرمی نے اس جارحیت کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ سکھوں کی توہین پر مبنی تھا، جو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ کلویندر سنگھ چیمہ نے کہا کہ بھارت مسلسل سکھوں کے خلاف دشمنی پر مبنی اقدامات کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1984ء میں بھارتی فوج نے دربار صاحب میں ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کیا تھا، 1971ء میں کرتار پور پر بم گرائے گئے اور حالیہ دنوں میں ننکانہ صاحب پر بھارت نے ڈرون حملہ کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت پانی جیسے ہتھیار کو استعمال کر کے مقدس مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ گورو نانک کرتار پور میں بھارت نے آبی جارحیت کر کے بے حرمتی کی۔ کلویندر سنگھ چیمہ نے واضح کیا کہ ہم بھارتی نہیں ہیں، نہ ہی یہ ملک ہمارا دیس ہے۔ یہ ہم پر حملہ آور ہیں، اور اب وقت آ چکا ہے کہ ہم خالصتان کی آزادی کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ سکھوں، مسلمانوں، کشمیریوں اور اب ٹرمپ کی نظروں سے گر کر مودی گویا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button