Column

بھارتی آبی جارحیت سے پنجاب میں بڑی تباہی

بھارتی آبی جارحیت سے
پنجاب میں بڑی تباہی
بھارت سے پاکستان اور اُس کے عوام کی بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے، اس نے ہمیشہ وطن عزیز اور اس کے عوام کے خلاف زہر اُگلا ہے اور جب موقع ملتا ہے اپنا خبث باطن ظاہر کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ معرکہ حق میں شکست کا داغ بھارت کو کسی کُل چین لینے نہیں دے رہا، پہلے پاکستان میں اپنے پالے ہوئے فتنوں کے ذریعے دہشت گردی میں شدّت لایا، بھارت کی اس کوشش کو افواج پاکستان نے انتہائی کامیابی اور مہارت کے ساتھ ناکام بناتے ہوئے اس کے فتنوں کا احسن انداز میں توڑ کیا، کتنے ہی دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ خطے میں اس وقت مون سون بارشوں کا زور ہے۔ بھارت و پاکستان میں تیز بارشیں ہورہی ہیں۔ سیلابی صورت حال سے بڑی تباہیاں آرہی ہیں۔ بھارت نے اپنے حصّے کی تباہی اطلاع دے کر پاکستان کے گلے ڈال دی ہے۔ اپنے ہاں آئے سیلاب کی نذر پاکستان کو کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ متاثر ہے اور آئندہ چند روز میں اس سیلاب کے سندھ میں آنے کا اندیشہ ہے۔ ابھی بھارت کی آبی جارحیت کے نتیجے میں پنجاب بھر میں بڑی تباہی دیکھنے میں آرہی ہے۔ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں جب کہ 28لوگ اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ بے شمار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج اور دیگر کی جانب سے امدادی اور بحالی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ پنجاب کے دریا بُری طرح بپھرے ہوئے ہیں اور صوبے میں سیلاب ہر طرف تباہی مچارہا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں کے باعث دریائے راوی، چناب اور ستلج بپھر گئے، جس کے باعث سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچا دی ہے، ہزاروں گائوں زیر آب آگئے، 14لاکھ 60 ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں، کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، مال مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے، 28افراد جاں بحق ہوگئے۔ بھارت نے دریائے جہلم میں بھی پانی چھوڑ دیا ہے۔ جھنگ اور چنیوٹ شہر کو بچانے کے لیے دریائے چناب میں سیلاب کے پیش نظر رواز پل کے قریب شگاف ڈال دیا گیا۔ ادھر دریائے ستلج بھی 1955ء کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہے، قصور شہر کو بچانے کے لیے آر آر اے ون بند میں شگاف ڈالا گیا ہے۔ ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید کا کہنا ہے کہ دریائے چناب کے پاٹ سے شہریوں کے انخلا کو یقینی بنالیا گیا ہے۔ فیصل آباد اور جھنگ انتظامیہ الرٹ ہے اور تمام افسر فیلڈ میں موجود ہیں۔ دوسری جانب دریائے راوی کے بپھرنے سے لاہور کے اطراف میں بھی کئی دیہات زیر آب آگئے ہیں جبکہ چند مضافاتی علاقوں میں بھی پانی داخل ہوا۔ تھیم پارک، موہلنوال، مرید وال، فرخ آباد، شفیق آباد، افغان کالونی، نیو میٹر سٹی اور چوہنگ ایریا سے محفوظ انخلا مکمل کر لیا گیا۔ طلعت پارک بابو صابو میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن تیزی سے جاری ہے۔ پارک ویو ہائوسنگ سوسائٹی کے چار بلاکس میں پانی داخل ہوا تاہم رہائشیوں کو بروقت نکال لیا گیا۔ لاچیوالی اسکول کے ریلیف کیمپ میں 70سے زائد افراد مقیم ہیں۔ بیشتر متاثرین چوہنگ اور ٹھوکر ریلیف کیمپ میں مقیم ہیں، قیام و طعام کی بہترین سہولتیں میسر کی گئی ہیں۔ سیلابی صورت حال کے باعث متعدد متاثرہ افراد اپنے خاندانوں اور سامان کے ساتھ لاہور۔ اسلام آباد موٹروے پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق دریائے چناب میں بڑا سیلابی ریلا چنیوٹ، جھنگ اور تریموں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دریائے چناب مرالہ کے مقام پر پانی کا بہائو 1لاکھ 16ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا اور خانکی ہیڈ ورکس کے مقام پہ پانی کا بہائو 1لاکھ 84ہزار کیوسک ہے۔ قادرآباد کے مقام پہ پانی کا بہائو 1لاکھ 85ہزار کیوسک ہے۔ چنیوٹ برج پر بڑا سیلابی ریلا گزر رہا ہے، دریائے چناب میں چنیوٹ برج کے مقام پر پانی کا بہائو 8لاکھ 55ہزار کیوسک ہے۔ ہیڈ تریمو کے مقام پر پانی کا بہائو 1لاکھ 29ہزار کیوسک ہے اور مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دریائے راوی میں جسر کے مقام پر پانی کا بہائو 84ہزار کیوسک ہے۔ جبکہ شاہدرہ کے مقام پر پانی کا بہائو 1لاکھ 84ہزار کیوسک ہے اور بہائو میں کمی آ رہی ہے۔ بلوکی ہیڈ ورکس پر پانی کا بہائو 1لاکھ 64ہزار کیوسک ہے اور اضافہ ہو رہا ہے۔ راوی ہیڈ سدھنائی کے مقام پر پانی کا بہائو29ہزار کیوسک ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہائو 3لاکھ 3ہزار کیوسک ہے اور بہائو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سلیمانکی کے مقام پہ پانی کا بہائو 1لاکھ 18ہزار کیوسک ہے۔ جبکہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ لاہور میں دریائے راوی کے مقام شاہدرہ سے گزرنے والا دو لاکھ 20ہزار کیوسک کا ریلا 1988ء کے بعد سب سے بڑا تھا، تاہم خوش قسمتی سے شہر میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ عرفان کاٹھیا نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے مادھوپور ہیڈ ورکس سے مسلسل 80ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، جو لاہور شاہدرہ سے گزر کر آگے چنیوٹ اور پھر ریواز برج تک پہنچے گا۔ ان کے بقول ریواز برج اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے اور اس مقام پر بند توڑنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے تاکہ جھنگ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ پنجاب میں حالیہ سیلاب کے باعث متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری ہیں۔ 30اضلاع میں جاری ٹرانسپورٹیشن آپریشن میں 669بوٹس اور 2861ریسکیورز شریک ہیں، سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے 2لاکھ 65ہزار سے زائد افراد، ایک لاکھ 48ہزار سے زائد مال مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ اہل وطن پر بڑا کڑا وقت پڑا ہے۔ پنجاب کے لاکھوں لوگ انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی ہے۔ بھارت آخر کب تک آبی دہشت گردی کرکے ملک و قوم کو مشکلات میں ڈالتا رہے گا۔ اس معاملے کو پاکستان کو عالمی سطح پر موثر طریقے سے اُٹھاتے ہوئے ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے کہ آئندہ بھارت کو آبی جارحیت کی جرأت نہ ہو۔ اہل وطن بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اُن کی مشکلات پر پورے ملک کے عوام درد کی کیفیت میں ہیں۔ اس موقع پر سب کو مل کر اہلیان پنجاب کی مدد و بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ شدید بارشیں اور سیلاب ہر سال دو سال بعد ملک و قوم کی مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔ ان کا موثر حل آبی ذخائر کی تعمیر ہے۔ اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
جان بچانے والی ادویہ کی قلت
پاکستان میں پہلے ہی دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ خطے کے دوسرے ممالک میں جان بچانے والی دوائیاں انتہائی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں جب کہ یہاں معمولی معمولی امراض کی ادویہ کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوتی ہیں۔ ادویہ اور علاج مہنگا ہونے کے سبب بہت سے غریب معالجین سے رجوع کرنے سے گریز کرتے ہیں، ادویہ تک استعمال نہیں کرتے، خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں کہ بچوں کا پیٹ پالیں یا علاج کروائیں۔ یوں اُن کی زندگی نقدی آہستہ آہستہ اپنے اختتام پر پہنچ جاتی ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو مہنگائی کے سبب اپنا علاج ترک کرکے خود کو حالات کی نذر کر چکے ہیں، کوئی شمار نہیں۔ ملک میں جان بچانے والی ادویہ کا حصول چنداں آسان نہیں، ان کی دستیابی کے لیے شہریوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تب جاکے کچھ اشک شوئی ہوتی ہے۔ آئے روز ادویہ کی قلت کی صورت حال درپیش رہتی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق انسولین سمیت 79اہم ادویہ کی دستیابی کے حوالے سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے سنگین امراض میں مبتلا لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں جان بچانے والی ادویہ کی شدید قلت ہوگئی، انسولین سمیت 79اہم ادویات دستیاب نہیں جب کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ یہ بحران لاکھوں مریضوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ پی ایم اے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری ایک نئی اور حقیقت پسندانہ دوا کی قیمتوں کی پالیسی منظور کی جائے، جو پیداواری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ادویہ کی تیاری کو مالی طور پر ممکن بناسکے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ( پی ایم اے) نے ملک بھر میں جان بچانے والی اور ضروری ادویہ کی غیر معمولی اور شدید قلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ بحران لاکھوں مریضوں کی زندگیوں کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق کم از کم 80 اہم ادویہ دستیاب نہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہے۔ بے شمار مریضوں کی زندگیوں پر خطرات منڈلارہے ہیں۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایسا بندوبست کیا جائے کہ آئندہ ادویہ کی قلت کی صورت حال جنم نہ لے سکے۔

جواب دیں

Back to top button