ColumnRoshan Lal

سیلاب اور آبی جارحیت کا مخمصہ

سیلاب اور آبی جارحیت کا مخمصہ

روشن لعل

سیلاب کا مظہر پاکستانی عوام کے لیے کوئی انوکھی اور انہونی بات نہیں ہے۔ اس خطے کے عوام آزادی سے پہلے اور بعد میں کئی چھوٹے بڑے سیلابوں کا سامنا کر چکے ہیں۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی سیلاب آئے ان کی وجہ مون سون کے دوران معمول سے زیادہ برسنے والی بارشیں بنتی رہی ہیں۔ یہ بات صرف پاکستان کی حد تک درست نہیں ہے بلکہ دنیا کے جس ملک میں بھی سیلاب آتے ہیں اس کا باعث معمول سے زیادہ بارشوں کا برسنا ہوتا ہے۔ مون سون کے دوران کیونکہ سیلابوں کی آمد خارج از امکان نہیں ہوتی اس لیے اس موسم کی آمد سے قبل سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچائو کے لیے ضروری حفاظتی انتظامات یہاں صدیوں کا معمول ہے۔ مغلیہ دور تک یہاں لوگ اپنے طور پر سیلاب سے تحفظ کے لیے انتظامات کرتے تھے۔ اس کے بعد انگریز عہد سے موجودہ دور تک سیلاب سے تحفظ فراہم کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داریوں کا حصہ بن گیا۔ اس کام کے لیے انگریز دور میں دریائوں پر حفاظتی پشتے اور بند بنانے کا آغاز ہوا۔ اس عمل کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی جانوں بلکہ ان کی فصلوں اور مال مویشیوں کو بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے تحفظ ملا۔ سیلاب سے تحفظ کے لیے دریائوں پر بند بنانے کا سائنسی عمل اس وقت سول انجینئرنگ ٹیکنالوجی کا اہم حصہ بن چکا ہے اور اس شعبہ میں تبدیل شدہ حالات کے مطابق ترقی کا عمل بھی جاری و ساری ہے ۔ یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں اس سائنسی ترقی سے کس حد تک استفادہ حاصل کیا گیا ہی اور اس سے سیلاب کے خطرے کی زد میں موجود لوگوں کی مشکلات کس حد تک کم ہو سکی ہیں۔
کسی بھی ملک میں سیلاب سے تحفظ کے اقدامات اس بات کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں وہاں سیلاب آنے کے کس قدر امکانات موجود ہیں۔ پاکستان میں سیلاب آنے کے امکانات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں سرکاری طور پر ہر سال کے مخصوص مہینوں کو ’’ سیلاب کے موسم ‘‘ (Flood Season)کا نام دیا گیا ہے۔ سیلاب کے موسم کا دورانیہ یہاں15جون سے 15اکتوبر تک ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کے15 جون سے 15اکتوبر تک یہاں کہیں بھی اور کسی بھی وقت سیلاب آسکتا ہے۔ موسمیاتی سائنس کے شعبے میں گزشتہ عشروں کے دوران بین الاقوامی سطح پر جو ترقی ہوئی ہے اس کی بدولت اب سیلابوں کی آمد ماضی کی طرح غیر متوقع نہیں رہی۔ سیلابوں سے تحفظ کے لیے جو انتظامات کیے جاتے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتا ہے۔ پہلے حصے میں مستقل طور پر کیے جانے والے ایسے انتظامات ہیں جن میں دریائوں پر حفاظتی پشتوں کی تعمیر سرفہرست ہے۔ کسی بھی علاقے کی آبادی کو دریائی سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی بند تعمیر کرنے سے پہلے ا س کا ڈیزائن تیار کیا جاتا ہے۔ ہر حفاظتی بند کے ڈیزائن کی بنیاد وہ تاریخی اعدادوشمار ہوتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ قبل ازیں اس علاقے میں زیادہ سے زیادہ کس شدت کا سیلاب آچکا ہے۔ اس طرح کے اعداد و شمار کی روشنی میں اس حد تک مضبوط حفاظتی بند ڈیزائن کیا جاتا ہے جو ماضی میں آنے والے سیلابوں کی شدت سے زیادہ شدید سیلاب کا دبائو برداشت کر سکے۔ سیلاب سے مستقل تحفظ کے لیے اس طرح کے بند تعمیر کرنے کے بعد ہر سال ان کی ضروری مرمت کی جاتی ہے اور اس کام کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ مستقل طور پر کیے گئے انتظامات کے علاوہ ہر سال سیلابی موسم کی آمد سے قبل بھی کچھ انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کے انتظامات کے لیے موسمیاتی سائنس کے عالمی ، علاقائی اور ملکی اداروں کی پیشگوئیاں اور رہنمائی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ادارے، پیشگوئیاں کرتے ہیں کہ سیلابی موسم کے دوران کس شدت کی بارشیں برسنے کا امکان ہے ۔ اگر معمول سے کم یا معمول کے مطابق بارشوں کی پش گوئی کی گئی ہو تو پھر غیر معمولی حفاظتی انتظامات کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اگر معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہو تو پھر سیلاب کے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں اور سیلاب کی زد میں موجود علاقوں کے لوگوں کو ممکنہ خطرات سے باخبر رکھا جاتا ہے۔ موسمیاتی سائنس کے ماہرین نے برسوں پر محیط اپنے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود بھی ایک حد تک ہی لوگوں کی جائیدادوں اور مال و اسباب کو سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے تحفظ کے لیے کیے گئے تمام تر اقدامات کے باوجود سیلاب کے دوران امدادی کاموں اور ممکنہ متاثرین کی بحالی کے کاموں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتااور ان کاموں کے لیے ہر ممکن انتظامات کیے جاتے ہیں۔
سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی موسمیاتی پیشگوئیوں سے استفادہ حاصل کرنے کی استعداد پر یہاں کئی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ مون سون 2025ء کے لیے سائوتھ ایشیا کلائمیٹ آئوٹ لک فورم نے ماہ اپریل کے آخر میںمعمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کر دی تھی ۔ اس پیش گوئی میں مختلف پاکستانی علاقوں میں 35سے 75فیصد تک معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ اسی طرح ان بھارتی علاقوں میں بھی غیر معمولی بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی جہاں برسنے والی بارش کا پانی مختلف دریائوں کے ذریعے پاکستان میں آتا ہے۔ ہمارا اپنا محکمہ موسمیات بعد ازں بارشوں کی جو پیشگوئیاں کرتا رہا ان سے بھی سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم کی مون سون 2025ء کے لیے کی گئی پیش گوئی کی تائید ہوئی۔ ان باتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی علاقوں سے پاکستان کے پنجاب میں داخل ہونے والے ستلج ، راوی اور چناب دریائوں میں پیدا ہونے والی حالیہ سیلابی کیفیت کو کسی طرح بھی غیر متوقع نہیں کہا جاسکتا۔ مذکورہ تین دریائوں میں معمول سے زیادہ پانی کے بہائو کو سیلاب کی بجائے سیلابی کیفیت اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ جس قسم کے تباہ کن سیلابوں کا سبب ان دریائوں کا پانی ماضی میں بنتا رہا ہے، ملحقہ علاقے حالیہ دنوں میں اس طرح کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے۔ گوکہ پنجاب میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے کے دوران انتظامی ادارے کافی متحرک نظر آئے لیکن انتظامیہ کے اقدامات کو کسی امتحان میں ڈالے بغیر دریائوں کا غیر معمولی بہائو سابقہ خطرناک ریکارڈ کی حد پہنچنے سے پہلے ہی بالائی علاقوں سے زیریں علاقوں کی طرف روانہ ہو گیا۔
بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریائوں میں جو سیلابی کیفیت پیدا ہوئی ، ہمارے کچھ میڈیا پرسنز اور سیاستدانوں نے اسے آبی جارحیت کا نام دیا ۔ یاد رہے کہ جب نریندر مودی پاکستان کا پانی بند کرنے کا بیان دیا تھا تو اسے درست طور پر بھارتی آبی جارحیت قرار دیا گیا تھا لیکن حالیہ دنوں میں بھارت سے جو غیر معمولی پانی پاکستان میں داخل ہوا وہ کسی کی آبی جارحیت نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے۔ ایک قدرتی عمل کو آبی جارحیت کا نام دے کر کچھ لوگوں نے بلاوجہ اپنے ذہنی خلفشار اور مخمصوں میں مبتلا ہونے کا تاثر دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button