ColumnTajamul Hussain Hashmi

ظالم کی کوئی زبان، صوبہ نہیں

ظالم کی کوئی زبان، صوبہ نہیں

تجمل حسین ہاشمی
بلوچستان کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جانے کتنی بار اسلام آباد کی دہلیز پر فریاد کر چکی ہیں۔ ہر دور میں وہی آنسو، وہی درد، اور آج بھی وہی سیاسی بیان بازی ، جھوٹے وعدے اور خالی آسرے ہیں ۔ ظالم کا کوئی صوبہ نہیں یہ سچ ہے۔ نہ وہ بلوچ ہے، نہ پنجابی، نہ سندھی اور نہ پشتون وہ صرف ظالم ہے۔ سیاسی فیصلوں نے ظلم کو بھی صوبوں میں بانٹ دیا ہے۔ پنجاب کے مسافر بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولی ماری جاتی ہے، ملک کے کسی دوسرے صوبے میں کبھی قومی کارڈ دیکھنے کے بعد گولی نہیں ماری جاتی۔ یہ تفریق آخر بلوچستان میں ہی کیوں پنپ رہی ہے۔ریاست کو دیانت داری کا مظاہر کرنا ہو گا۔ لاپتہ افراد کے بارے میں حقیقت کو سامنے لانا چاہئے۔ ان کا ریاست مخالف تمام ریکارڈ سامنے لانا چاہئے، ان کی سرگرمیوں کو پبلک کرے چاہئے۔ احتجاج کرنے والوں کی شناخت کو بھی پبلک کرنا چاہئے۔ اگر کوئی لا پتہ باغی گروہ کا حصہ ہے تو ثبوت کے ساتھ قوم کو بتایا جانا چاہئے۔ سندھ ہائیکورٹ میں چار مسنگ پرسن کی درخواست کو نمٹا دیا گیا۔ سزا وار کو سزا دی جانی چاہئے، بے قصور کے گھر والوں کو تڑپانے کی آءین میں کوئی شق نہیں ہے۔ سوالات چھپانے سے ختم نہیں ہوتے، وہ مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی فیصلے بھی تفریق کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ پاکستان میں جب پہلی بار مارشل لا لگا تو عبدالصمد اچکزئی، شیخ مجیب، خان عبدالغفار خان اور مولانا مودودی تک سب فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ مولانا مودودی نے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی اور کہا: ’’ فاطمہ جناح میں کوئی خامی نہیں، لہٰذا ہم انہی کے ساتھ ہیں‘‘۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی لیڈروں نے وہی اصول بھلا دئیے جنہیں وہ کبھی زندگی کا نعرہ سمجھتے تھے۔ ذاتی انا کی تسکین میں کئی بار آئین شکنی میں سیاسی جماعتوں کا کردار رہا۔ ریاستی فیصلوں کی تاریخ دیکھیں تو قید و بند کی داستانیں بھی صوبائی تعصبات، انسانی تفریق کا باعث بنی۔ ظہور الٰہی کو مچھ جیل میں رکھا گیا، عبدالصمد اچکزئی کو بلوچستان کی جیل میں قید کیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی، اکبر بگٹی لاہور کی جیل میں رہے، نواز شریف لانڈھی جیل کراچی میں قید رہے اور صدر آصف زرداری نے زیادہ عرصہ لاہور اور راولپنڈی کی جیلوں میں گزارا۔ یہ سب سیاسی رہنما اپنی اپنی باری پر مظلوم بھی بنے اور اپنی باری پر دوسروں کو قید کرنے والے فیصلوں کا حصہ بھی رہے۔ یہی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ قید کو ’’ قومی خدمت ‘‘ کہا جاتا ہے مگر اقتدار ملتے ہی وہی خدمت دوسروں کو زبردستی دی جاتی ہے۔ خود کو جمہوری اور مفاہمت کا بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔ جمہوری انتخابات میں جیتنے والا بھی خاموش اور ہارنے والے کو بھی خاموش کروا دیا جاتا ہے ۔ جن کیلئے انتخابات کرائے جاتے ہیں، وہ آج بھی سیلابی پانی بے روزگار اور عدل و انصاف کے لیے دربدر ہیں۔
عوامی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ روزگار انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس میں مشکلات سے نظام میں افراتفری اور انتشار میں اضافہ ہو گا۔ فیصلہ سازی حکومتوں کا کام ہے مگر منصوبوں کی پلاننگ میں دور اندیشی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ماضی کے بیشتر فیصلے سے ثابت ہے کہ وہ وقتی تھے اور انہوں نے تقسیم اور تفریق کو بڑھاوا دیا۔ چند عرصے کیلئے بہتر رہے اس کے بعد قومی خزانہ پر بوجھ ثابت ہوئے۔ سیاسی جماعتیں آج بھی انہی پرانے زخموں کو اپنے مفاد کے لیے تازہ رکھتی ہیں اور اسی سوچ پر اپنے ووٹر کو متحرک کر کے اقتدار تک پہنچتی ہیں۔
اب کی موجودہ عسکری و سیاسی قیادت کے بعض حالیہ اقدامات میں کم از کم ایک مستقل سوچ جھلکتی ہے۔ ایک واضح پلاننگ نظر آتی ہے، جو اگر جاری رہی تو بہتر مستقبل کی امید ہے۔ لیکن امید سے زیادہ پرانا خطرہ منڈلا رہا ہے کہ کہیں یہ منصوبے بھی ماضی کی طرح وقتی نہ نکلیں اور عوام دوبارہ مایوسی میں چلے جائیں۔ اس بار سیاست دانوں کو بھی سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور تھوڑا صبر سے کام لیں۔ حکومت کے اچھے کاموں کو بھر پور سپورٹ کرنی چاہئے تاکہ عوام کو کہیں تو ریلیف مل سکے۔

جواب دیں

Back to top button