Column

کالم :صورتحال

کالم :صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
سیلابوں اور سانپوں کا موسم
سانپ اور انسان کا ساتھ بہت پرانا ہے، اس حوالے سے کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ایک ترک کہاوت ہے، دریا ایک سانپ ہے اور اس میں موجود اس کے ساتھ بہنے والے پتھر اس کے انڈے ہیں، یہ سو سال بعد بھی اپنے انڈوں کو دیکھنے کیلئے، انہیں سینے کیلئے آسکتا ہے، ہم آج بارشوں کی زد میں ہیں۔ بارشوں سے دریا چڑھ رہے ہیں، بپھر رہے ہیں، اپنے ہمراہ پتھروں کا سیلاب بھی لا رہے ہیں۔ کبھی یہ منظر صوبہ خبیر میں نظر آتا ہے، کبھی پنجاب میں اور اب اس کی ایک جھلک سندھ میں نظر آرہی ہے، جبکہ بھارت نے بھی پانی چھوڑ دیا ہے۔ انسانوں پر پتھر برسنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کبھی یہ مسور کی دال کے دانے کے برابر اور ابابیلوں کی چونچ میں نظر آتے ہیں، کبھی یہ دریائوں کے دھارے کے ساتھ بہتے آبادیوں میں پہنچتے ہیں، کبھی یہ ابا بیلوں یا دریا کے پانیوں کے انتظار میں نہیں رہتے، پہاڑ کی چوٹیوں سے خدا کے حکم کے تحت سرکتے ہیں اور جن سروں کو کچلنے کا حکم ہو انہیں کچل کے وہیں کسی سٹرک کے کنارے رک جاتے ہیں اور راستے روک دیتے ہیں۔ دریا اور سانپ کے حوالے سے ترک کہاوت تو کسی غریب ملک کی کہاوت ہے، ہم جیسے ترقی یافتہ ملک اور خیر سے ایٹمی ملک دریائوں، پتھروں اور سانپوں کے محتاج نہیں، ہم سانپوں کے معاملے میں گزشتہ ستر برس سے خود کفیل ہیں، ہمارے یہاں کم از کم سو اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ محاورتاً ان کا تعلق گریڈ ایک سے گریڈ ایک سو بائیس تک ہے۔ ان میں سیاہ اور سنہرے ناگ ہیں، چوڑے پھن والے بھی ہیں، جنہیں پھنیئر کہا جاتا ہے۔ رنگین ڈیزایز سانپ ہیں۔ جنہیں کوڈی والے یا منکے والے سانپ کہا جاتا ہے۔ سانپوں کی ایک اور قسم بھی ہے جو پانی، خشکی، پودوں اور درختوں میں نظر آتے ہیں۔ انہیں آپ آوارہ منش سانپ کہہ سکتے ہیں۔ ہر وقت آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، ان کا پسندیدہ کام دوسروں کے گھونسلوں میں گھس کر ان کے انڈے پینا ہے۔ یہ صرف کویل کے انڈے پی کر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ سیاحتی پرندوں کے گھونسلوں میں بھی گھس سکتے ہیں۔ کہتے ہیں سیلاب کے پانی کے ساتھ بہہ کر آنیوالے سانپوں کا ایک الگ قبیلہ ہوتا ہے، یہ دیکھنے میں بے ضرر ہوتے ہیں، لیکن ان کا ڈسا پانی نہیں مانگتا، انہیں سپیرے کی بین کا انتظار نہیں رہتا، یہ کسی کے محتاج نہیں، یہ کسی کے تابع نہیں، یہ اپنی دنیا خود دریافت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی دنیا میں ترقی کی منزلیں تیزی سے طے ہوتے نظر آتی ہے، بلکہ منزلیں ان کے قدموں میں خود سرنگوں ہو جاتی ہیں، یہ بڑھ کر انہیں سہارا دیتے ہیں۔ سانپوں کی ایک قسم ہے جسے مغرور سانپ کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے یہ کسی کے عشق میں پاگل ہو کر اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ پھر اپنی محبوبہ کی بے وفائی کے بعد اس قابل نہیں رہتے کہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ یہ دوسروں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں، پھر گھر و الے کی نظر پڑنے پر اس کی جوتی سے کچلے جاتے ہیں۔ سانپوں میں رقاص بھی پائے جاتے ہیں، آپ نے انہیں پاکستانی اور بھارتی محلوں اکثر دیکھا ہوگا، یہ ہمیشہ جوڑے کی شکل میں رہنے ہیں۔ یعنی مشرقی میاں بیوی کے سٹائل میں زندگی گزارتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے محبت کی شادی کی ہو، یہ ایک دوسرے کیلئے زندگی وقف کیے رہتے ہیں، دونوں میں کوئی ادھر ادھر منہ نہیں مارتا، یہ چاندنی راتوں میں رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ جوڑے میں سے کوئی ایک مر جائے تو دوسرا زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا، آپ ان کے عقیدے کو ہندو دھرم سے نہیں جوڑ سکتے۔ کیونکہ یہ ایک کے مرنے پر اس کے ساتھ ستی نہیں ہو جاتے، بس انہیں اپنے ساتھی کی جدائی راس نہیں آتی، شاید انہیں ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے۔ یہ مرنے سے پہلے چیونٹیاں، کیڑے مکوڑے کھاتے رہتے ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد یہی چیونٹیاں، کیڑے مکوڑے انہیں چٹ کر جاتے ہیں، سانپوں کے بارے میں ایک عرصہ تک مشہور تھا یہ انسان کی چارپائی یعنی بستر تک نہیں چڑھ سکتے، یہ اس زمانے کی بات ہے جب زمانہ ترقی یافتہ نہ تھا، جب انسان چاند پر چڑھ گیا تو شاید سانپوں نے اس کی ترقی کو دیکھ کر خود بھی ترقی یافتہ ہونے کی کوشش شروع کر دی، اب سانپ کیلئے انسان کی چارپائی یا بستر کی اونچائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ انسان نے اپنی سوچ بدلی ہے، رہنے سہنے کے انداز بدلے ہیں، لباس کی تراش خراش بدلی ہے، اپنی خوراک میں بھی تبدیلیاں کی ہیں، اسی طرح سانپوں نے بھی اپنی زندگی میں بہت تبدیلیاں کی ہیں، پہلے وہ گھونسلوں میں گھس کر پرندوں کے انڈے پی جاتے تھے، اب وہ گوشت خور بھی ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے انہیں گوشت مفت میں ملتا ہے، خرید کر نہیں کھانا پڑتا، اگر انہیں چکن7سو روپے فی کلو، بیف 14سو روپے اور مٹن 28سو روپے فی کلو خرید کر کھانا پڑتا تو سارے سانپ گوشت سے منہ موڑ کر ویجیٹیرین بن جاتے، وہ کسی کے یہاں مہمان جاتے تو مہربان دال روٹی میز پر سجا کر پہلے ہی انہیں بتا دیتا کہ ہمارے بچے تو گوشت کو منہ نہیں لگاتے، سب ویجیٹیرین ہیں، سب اپنے بڑھتے ہوءے وزن سے پریشان ہیں، سب ڈائٹ پر ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ وسیع پیمانے پر سانپ پالنے کا ایک ہی شوقین دیکھا، لاہور کینٹ میں ایک گریڈ بائیس کے افسر عرصہ دراز سے مقیم ہیں، انہیں سانپ پالنے کا بہت پرانا شوق ہے، ان کے گھر میں سیکڑوں کی تعداد میں سانپ موجود ہیں، ان میں ہر اس قسم کے سانپ موجود ہیں، جن کا ذکر آپ نے زندگی میں کبھی نہ کبھی پڑھا سنا ہو گا، یہ سرکاری افسر اب سابق سرکاری افسر ہو چکے ہیں، ان کے گھر کے باہر گلی نیم پلیٹ پر ان کے نام کے ساتھ ’’ سپاں والا‘‘ بھی لکھا ہے۔ وہ اپنے اس شوق کے سبب اتنے مشہور ہوئے کہ اکثر لوگ انہیں ان کے اصل نام کی بجائے ’’ سپاں والا ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں، ان کی اعلیٰ ظرفی کہ وہ اس بات کا برا نہیں مانتے، زندگی سانپوں کی صحبت میں گزارنے سے ان کی شخصیت اور ان کے کردار پر کیا اثر پڑا، یہ کتاب کا موضوع ہے، وقت نے ثابت کیا سانپوں سے دوستی کا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہے۔ آج کل ہر دوسرا شخص کسی نے کسی ناگن سے دوستی کا خواہشمند ہے، اسے فرینڈ ریکویسٹ بھیج رہا ہے، ناگن بھی پھن پھیلائے ان کی منتظر رہتی ہیں، پھر موقع ملتے ہی ڈس لیتی ہیں۔
سیلاب اپنے ساتھ سانپ بھی لے کر آتے ہیں، سیلاب کے پانیوں کے ساتھ ہمسایہ ملک سے ڈھور ڈنگر بہہ کر ساتھ آتے ہیں، ہمارے ڈنگر بہہ کر کہیں اور نکل جاتے ہیں، یہ سانپ اور جانور بلا ٹکٹ ، بلا ویزا سفر کرتے ہیں، انہیں کوئی نہیں روکتا، سیلابوں کے ساتھ آئی مٹی زرخیزی لاتی ہے، مگر اس سے پہلے سیلاب فصلیں اجاڑتا ہے۔ املاک تباہ کرتا ہے، اس تباہی کے بعد تعمیر نو شروع ہوتی ہے، جسے کچھ لوگ لاٹری سے تعبیر کرتے ہیں۔ پس سیلابوں سے نپٹنے کے بعد لاٹری نکلے گی، جس کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button