گریٹر اسرائیل کا وہم

گریٹر اسرائیل کا وہم
قادر خان یوسف زئی
دنیا کی سیاست میں بعض ایسے تصورات اور خیالات جنم لیتے ہیں جو محض کاغذوں یا نظریاتی مباحث تک محدود نہیں رہتے بلکہ وہ ایک دن حقیقت کا روپ دھار کر عالمی سطح پر اثرانداز ہونے لگتے ہیں۔ یہ تصورات جب طاقتور ریاستوں کے ایجنڈے سے جڑ جائیں تو ان کے مضمرات صرف ایک خطے تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا تصور بھی انہی میں سے ایک ہے، جو اگرچہ ابتدا میں صیہونی تحریک کے چند نظریاتی طبقات میں زیرِ بحث رہا، لیکن آج یہ اسرائیل کی پالیسیوں اور بیانیے میں کھل کر جھلکنے لگا ہے۔ یہ محض ایک واہمہ نہیں بلکہ ایسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی نقشہ گری کو تبدیل کرنے کے خواب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
اس تصور کی بنیاد ایک تاریخی اور مذہبی دعوے پر ہے کہ اسرائیل کی سلطنت نیل سے فرات تک پھیلی ہونی چاہیے۔ اس میں مصر، اردن، شام، عراق، لبنان اور سعودی عرب کے کچھ حصے شامل کر کے ایک ایسا خطہ بنایا جائے جسے یہودی ریاست کے’’ تاریخی حق‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب اسرائیل معرضِ وجود میں آیا تو اس خواب کو ریاستی پالیسی کے طور پر سامنے لانا بظاہر مشکل دکھائی دیتا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے فوجی طاقت، معاشی اثر و رسوخ اور عالمی حمایت کے سہارے ایسے اقدامات کیے جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا وہم اب عملی اقدامات سے جڑا جا رہا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ محض اسرائیلی سیاست میں ریٹورک کی حد تک محدود ہے یا اس کے پیچھے کوئی ٹھوس عملی حکمتِ عملی کارفرما ہے؟ اگر ہم پچھلی چند دہائیوں کے اقدامات کو دیکھیں تو جواب زیادہ مشکل نہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے مغربی کنارے اور غزہ کی صورت میں ایسے علاقے اپنی گرفت میں لیے جہاں بین الاقوامی قوانین کے تحت فلسطینیوں کا حقِ خود ارادیت تسلیم شدہ ہے۔ مگر ان علاقوں میں غیر قانونی بستیاں بسا کر اور مقامی آبادی کو زبردستی بے دخل کر کے اسرائیل ایک ایسی حقیقت قائم کر رہا ہے جسے بدلنا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
اکتوبر 2023ء کے بعد شروع ہونے والا تازہ تنازع اسرائیل کے اس ایجنڈے کو نئی رفتار دیتا دکھائی دیتا ہے۔ غزہ پر تباہ کن فضائی بمباری، پناہ گزین کیمپوں کا اجڑ جانا، اور ہزاروں فلسطینیوں کا بے گھر ہونا اسی پالیسی کی جھلکیاں ہیں۔ جنوری 2025ء میں ہونے والا آپریشن ’’ آئرن وال‘‘ اس کی ایک مثال ہے جس میں لاکھوں افراد کو اپنے ہی گھروں سے نکال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی منظوری دے کر اسرائیل اپنی موجودگی کو مستقل بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنوبی لبنان اور شام میں بار بار کی جانے والی فوجی مداخلتیں بھی اسی حکمتِ عملی کی کڑیاں ہیں جو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی عکاس ہیں۔
بین الاقوامی برادری کی پالیسی اس معاملے میں ہمیشہ دوہرے معیار کا شکار رہی ہے۔ ایک طرف عالمی طاقتیں اسرائیل کی ان کارروائیوں کی مذمت کرتی ہیں، دوسری طرف عملی طور پر اسرائیل کو سیاسی، عسکری اور مالی سہارا بھی فراہم کرتی ہیں۔ امریکہ کی غیر متزلزل حمایت اسرائیل کے اس منصوبے کو حوصلہ دیتی ہے، اور یورپی ممالک کی اکثریت بھی دبے لفظوں میں اسرائیل کی پشت پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی قراردادیں محض کاغذی کارروائی بن کر رہ جاتی ہیں۔
مسلم اکثریتی ممالک کا جائزہ لیں تو واضح نظر آتا ہے کہ اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے براہِ راست متاثر یہی ممالک ہیں۔ ان کے وزرائے خارجہ اور حکمران بارہا بیانات دیتے ہیں، او آئی سی کے پلیٹ فارم پر اجلاس بلائے جاتے ہیں، مشترکہ مذمتی قراردادیں پاس کی جاتی ہیں، لیکن عملی اقدامات ہمیشہ کمزور اور غیر موثر رہتے ہیں۔ اگست 2025 ء کے جدہ اجلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک نے اسرائیل کے عزائم کی مذمت کی اور کہا کہ یہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ ایران نے اجتماعی مزاحمت کی بات کی، پاکستان نے اسے خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا، اور کئی ممالک نے اقتصادی بائیکاٹ اور سفارتی تعلقات کے خاتمے کی تجاویز پیش کیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تجاویز سیاسی بیانات سے آگے بڑھنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ مسلم دنیا کے داخلی اختلافات، فرقہ وارانہ تقسیمیں اور سیاسی کشمکش اسرائیل کے خلاف کسی متحد محاذ کو جنم نہیں لینے دیتیں۔ کچھ ممالک نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی راہ اختیار کی ہے، جس سے اسرائیل کو مزید اعتماد ملتا ہے کہ اس کے اقدامات پر مسلم دنیا عملی طور پر متفق نہیں۔ ایسے میں او آئی سی کے اجلاس اکثر محض رسمی کارروائی بن جاتے ہیں جن میں سخت بیانات تو دیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا کوئی میکانزم موجود نہیں ہوتا۔
یہاں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کو روکنے کے لیے صرف جذباتی بیانات کافی نہیں بلکہ متحد اور منظم عملی اقدامات درکار ہیں۔ اگر مسلم اکثریتی ممالک واقعی اپنے عوام اور خطے کے مستقبل کی فکر کرتے ہیں تو انہیں کم از کم معاشی دبائو کے ذریعے اسرائیل پر اثرانداز ہونا چاہیے۔ تیل کی برآمدات روکنے جیسا قدم یا عالمی منڈی میں اسرائیل کے حامیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ایک ممکنہ راستہ ہے، مگر اس کے لیے سیاسی عزم اور اتحاد درکار ہے، جو فی الحال نظر نہیں آتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طاقت کے اس کھیل میں سب سے بڑی قربانی ہمیشہ معصوم عوام دیتی ہے۔ فلسطینی عوام دہائیوں سے اپنی زمین اور گھروں سے محروم کیے جا رہے ہیں۔ بچے، عورتیں اور بزرگ مسلسل جلاوطنی، بمباری اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ عالمی ضمیر کی بے حسی اور مسلم اکثریتی ممالک کی کمزوری اس المیے کو اور گہرا کرتی جا رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو گریٹر اسرائیل کا خواب حقیقت کے قریب ہوتا جائے گا، اور یہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا کے امن کے لیے ایک نیا آتش فشاں ثابت ہوگا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا اپنی داخلی تقسیم پر قابو پائے، جذبات سے نکل کر عملی اقدامات کرے اور سفارت کاری، معیشت اور عالمی قانون کے محاذ پر اسرائیل کو چیلنج کرے۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں اس کمزوری پر کبھی معاف نہیں کریں گی۔ دنیا میں غیر مسلم ممالک بھی کھل کر اسرائیل مخالف بیانات عوام کے دبائو میں آکر دینے لگے ہیں ، مسلم اکثریتی ممالک کو بھی تلخ سچ کو بیان کرنا ہوگا، خواہ وہ طاقتوروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے، ہر محاذ پر اسرائیل کو چیلنج کرنا ہوگا۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں اس کمزوری پر کبھی معاف نہیں کریں گی۔





