Column

بھارتی آبی جارحیت، پاکستان معاملہ عالمی سطح پر اُٹھائے

بھارتی آبی جارحیت، پاکستان معاملہ عالمی سطح پر اُٹھائے
جنگ مئی میں بُری طرح درگت بننے کے بعد بھارت کئی روز تک سوگ کی کیفیت میں رہا، جب حواس بحال ہوئے تو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس وقت برصغیر میں شدید بارشوں کا زور اور سیلابی صورت حال ہے۔ بھارت میں بھی شدید بارشوں سے سیلابی صورت حال درپیش ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت اپنے حصے کی مصیبت کو خود جھیلتا اور اس سے نمٹتا، اس نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی چھوڑ دیا، جس سے پنجاب میں بدترین سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ پاک فوج ریسکیو سرگرمیوں میں تندہی سے مصروفِ عمل ہے جب کہ بے شمار گھر سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ پاکستان ماحولیاتی تغیر میں ذرا بھی حصہ نہیں ڈال رہا، لیکن اس کی وجہ سے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات اُٹھا رہا ہے۔ بھارتی آبی دہشت گردی سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس وقت شدید متاثر ہے، خاصی مشکل صورت حال کا اہل پنجاب کو سامنا ہے۔ بھارت کی جانب سے دریاں میں پانی چھوڑے جانے کے بعد پنجاب کے دریاں ستلج، راوی اور چناب میں سیلابی صورتحال سنگین رخ اختیار کر گئی جبکہ آبپاشی اسٹرکچر کو بچانے کے لیے چناب میں ہیڈ قادرآباد بند دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ بھارتی آبی جارحیت کے بعد پنجاب کے ندی نالوں اور دریاں میں طغیانی سے سیکڑوں ایکڑ اراضی زیر آب آ چکی ہے۔ پسرور کے گائوں کوٹلی باوا فقیر چن میں نالہ ڈیک میں طغیانی کے باعث گاں کا مقامی قبرستان ختم ہوگیا جبکہ چاول کی تیار فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بھارت نے دریاں میں مزید سیلاب کی وارننگ بھی جاری کر دی ہے اور اس حوالے سے بھارتی ہائی کمیشن نے آگاہ کر دیا ہے۔ دریائے ستلج فیروزپور کے مقام سے سیلابی ریلا داخل ہو سکتا ہے اور راوی میں مدھوپور سے سیلابی ریلا آنے کا امکان ہے، چناب میں اکھنور کے مقام سے سیلابی ریلے کے داخل ہونے کی توقع ہے۔ تینوں دریاں میں اونچے درجے کا سیلاب آسکتا ہے۔ بھارتی اطلاع پر انڈس واٹر کمیشن نے فلڈ الرٹ جاری کر دیا۔ سیلابی صورت حال کے باعث ضلع حافظ آباد کے لیے بھی فوج طلب کر لی گئی ہے۔ یہ پنجاب کا آٹھواں ضلع ہے جہاں ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر امدادی سرگرمیوں کے لیے فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ اب تک لاہور، قصور، سیالکوٹ، نارروال، فیصل آباد، اوکاڑہ، سرگودھا اور حافظ آباد میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فوج طلب کی گئی ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے پنجاب کا کہنا ہے اگلے 48گھنٹے راوی اور چناب کے لیے نہایت نازک ہیں، تاہم بارشوں کا موجودہ اسپیل ختم ہو رہا ہے اور آئندہ دنوں میں نسبتاً کم بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ڈی جی پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) عرفان علی کاٹھیا نے سیلابی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہیڈ مرالہ کا ڈھانچہ محفوظ ہے اور وہاں سے گزرنے والا ریلہ اب خانکی ہیڈ ورکس سے ہوتا ہوا نیچے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق امید ہے کہ یہ ریلا کسی بڑے نقصان کے بغیر پنجند کے مقام تک پہنچ جائے گا۔ دریائے چناب میں پانی کی سطح 9لاکھ 2ہزار کیوسک تک جا پہنچی ہے جس کے باعث 128دیہات زیرِ آب آ گئے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سات اضلاع میں پاک فوج کو طلب کیا گیا ہے۔ نالہ ڈیک اور نالہ بلستر میں بھی اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا، تاہم حکام کے مطابق پانی کے انخلا کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ سیلابی خطرات کے پیش نظر 900ملین روپے متاثرہ اضلاع کے لیے جاری کر دیے گئے ہیں اور ریلیف کیمپس میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات دستیاب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو بروقت ہائی الرٹ جاری کیا گیا تھا اور اب تک بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق قادر آباد کے رائٹ مارجنل بند میں بریچنگ کر دی گئی ہے، ایمرجنسی صورتحال کے پیش نظر بریچنگ سیکشن کیا گیا ہے۔ قادر آباد ہیڈ ورکس کی موجودہ صلاحیت 8لاکھ کیوسک کی ہے اور آبپاشی اسٹرکچر کو بچانے کے لیے بریچ ناگزیر تھی۔ قادر آباد ہیڈ ورکس میں پانی کا آمد 9لاکھ 35ہزار کیوسک ہے، جس انتہائی خطرناک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ پنجاب کی صورت حال پر ملک بھر میں بسنے والے عوام درد سے تڑپ رہے ہیں۔ دعائوں کے لیے ہاتھ بلند ہیں کہ اللہ اہل وطن پر اپنا رحم فرمائے۔ امسال بارشوں نے پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کم تباہ کاریاں نہیں مچائی ہیں۔ بہت بڑے جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ 800سے زائد اہل وطن بارشوں اور سیلاب کے سبب جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بے شمار لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی میں پاکستان کا قصور نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ سب سے زیادہ سزا اسی کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اس موقع پر مہذب دُنیا کو آگے آکر پاکستان کا اس مشکل سے نکالنے کے لیے ساتھ دینا چاہیے۔ دوسری جانب بھارتی آبی جارحیت ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ گو بھارت نے پیشگی آگاہ کیا، لیکن اپنے حصے کی مصیبت پاکستان کے سر منڈھنا کسی طور مناسب نہیں۔ پاکستان کو اس معاملے کو موثر طریقے سے عالمی سطح پر اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں اور ایسی کوششیں کی جائیں کہ آئندہ بھارت آبی دہشت گردی کا سوچ بھی نہ سکے۔ دوسری جانب چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر فوری تعمیر کیے جائیں۔ اس حوالے سے تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں۔
بارشوں کے بعد ملیریا کیسز میں اضافہ
ملک کے اکثر حصوں میں شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت حال ہے۔ کئی علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں بارشیں نہیں ہورہیں، لیکن ان کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے بہت سے شہری مشکلات کا شکار ہیں۔ امراض بھی پھوٹ رہے ہیں۔ ڈینگی کیسز میں بھی اضافہ ہورہا ہے جب کہ ملیریا کے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں۔ سندھ میں ملیریا میں بڑی تعداد میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ بھر میں بارشوں کے بعد ملیریا کے کیسز میں اضافہ ہونے لگا۔ محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق جنوری سے 25اگست تک سندھ بھر میں ملیریا کے ایک لاکھ 16ہزار 828 کیسز سامنے آئے، کراچی سے ملیریا کے1200کیس رپورٹ ہوئے۔ ترجمان کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ ضلع ملیر سے ملیریا کے 432کیس رپورٹ ہوئے۔ دوسری جانب حیدرآباد ڈویژن سے ملیریا کے 50ہزار 499جبکہ سکھر ڈویژن سے 9ہزار 263اور لاڑکانہ ڈویژن سے ملیریا کے 33ہزار333کیس سامنے آئے۔ میرپورخاص ڈویژن سے ملیریا کے 8 ہزار 943جبکہ شہید بینظیرآباد ڈویژن سے 13ہزار 590کیس رپورٹ ہوئے۔ ترجمان محکمہ صحت کے مطابق رواں سال دماغی ملیریا کے بھی 3کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، تینوں مریضوں کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ ملیریا کیسز میں ہوش رُبا اضافہ تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ حکومت کو اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ صفائی کی صورت حال بہتر بنائی جائے۔ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بارشوں اور سیلاب کی صورت حال ہے۔ وہاں بھی ڈینگی اور ملیریا کیسز میں اضافے کے خدشات ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button