راوی کی راہ میں گھر بنانے والوں کا کچھ نہ رہے گا

از : راؤ بلال یوسف لاہور ، پاکستان
پاکستان کے لینڈ مافیا نے پہلے لوگوں سے زرعی زمین کسانوں سے اونے پونے داموں لے کر ان پر کالونیاں بنا کر اس ملک خداد میں زرعی کاروبار تباہ کیا۔ جب یہ لوگ زرعی کاروبار تباہ کر رہے تھے تب بھی ماحولیاتی ایکسپرٹس نے وارننگ جاری کی کہ یہ قدم ہمارے پر کہر بن کر ٹوٹے گا کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے کھڑا ہے اور زرعی زمین اگر ختم ہوگئی تو نہ صفر ماحولیاتی نقصان ہوگا بلکہ معاشی نقصان بھی ہوگا۔ لیکن ہمارے تھنک ٹینکس نے تمام باتوں کو رد کرتے ہوئے زرعی زمینوں پر کالونیاں بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ ان لوگوں نے زرعی زمینوں کے بعد اپنی نظر دریاؤں کی زمین پر رکھ لی۔ اب بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ میں نے یہ بہت بڑی بات کر دی ہے۔ یہ بات ہے سال 2019-20کی جب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے راوی دریا پر جا کر ایک ویڈیو بنوا کر راوی اربن سٹی کے نام پر ایک پراجیکٹ لانچ کیا اور یہ پراجیکٹ RUDA تھا اور اس کا بنیادی مقصد پنجاب کے سینئر منسٹر عبدلعیم خان کو سہولتکاری فراہم کرنا تھا۔ کیونکہ عمران خان نے دورہ اقتدار میں آنے کے لیے کچھ چیزوں کا وعدہ ان لوگوں سے کیا تھا جنہوں نے حکومت بنانے میں سہولت کاری کی تھی۔
اب RUDA کا ذکر ہوا ہے تو وہ ہے کیا RUDA کا مقصد پانی کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے راوی کے راستے پر ایک انسانی ساختہ چینل اور بیراجوں کا ایک سلسلہ بنانا ہے، جس کے بارے میں اتھارٹی کا کہنا ہے کہ جو محدود بہاؤ باقی ہے اسے بچانے اور لاہور کے زیر زمین پانی کی فراہمی کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ اب یہ سننے اور سمجھنے میں کافی اچھی لگ رہی ہے لیکن دریا کہ بہاؤ کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ یہ بات اس وقت مسورہ دینے والوں کو سمجھ کیوں نہیں آئی پہلے راوی کنارے آباد لوگوں کو دریا کنارے سے ہٹایا گیا اور انہیں یہ سنہری باگ دیکھایا گیا کہ انہیں راوی سٹی میں ایڈجسٹ کیا جائے گا اور یہ زمین پارک ویو سٹی کے حوالہ کر دی گئی۔ اب پارک ویو سٹی کے رہنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ پارک ویو کے کچھ بلاکس کی تعمیر راوی کی جگہ پر کی گئی ہے جہاں سے دریا گزر رہا ہے۔
حالیہ بارشوں کے پیش نظراور انڈیا کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد یہ دیکھنے میں آیا کہ سب سے پہلے پارک ویو کے رہنے والوں کو الرٹ جاری کیا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑنے کے احکامات جاری کیے گئے اور مسلسل کیے جارہے ہیں۔ اب پاکستان کے رہنے والے اپنے تمام تر کیے گناؤں کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کے عادی ہیں۔ پاکستان مٰن حالیہ سیلاب اور اس کی تباہکاریوں کا ذمہ بھارت پر ڈالا جارہا میں یہ سمجھتا ہوں کہ انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی اتنا ہی قصور ہے ہم کیوں نہیں ڈیم بناتے ہم کیوں بروقت اقدامات نہیں کرتے کیوں ہمیں ڈیم بنانے سے ڈر لگتا ہے؟ بہت سے سوالات ہیں کل سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک صحافی بھائی جو راوی پر رپورٹنگ کے لیے موجود تھے نے کیا خوب لکھ رکھا تھا” آج بپھرے ہوئے راوی سے ملاقات ہوئی۔ میرے راستوں پر قبضہ کیوں کیا؟ پورے شہر کا فضلہ مجھ میں کیوں ڈالتے ہو؟ ڈیم بناتے موت پڑتی ہے؟ اور پتہ نہیں کیا کیا سوال کرتا رہا۔‘‘ راوی کے اردگرد سوسٹیاں بنانے کا جواز یہ دیا گیا اور عوام الناس کے دماغوں میں یہ بات دالی گئی کہ راوی اب بوڑھا ہو گیا ہے راوی کا اب وہ جوبن نہیں رہا۔ مختلف لوگوں نے مختلف آرا پیش کیں ایک بندے نے اس پراجیکٹ کے دفاع میں کہا کہ راوی اب کبھی 100سال بعد جوان ہوگا تب تک حالات اور بدل جائیں گے۔ میری رائے تھی کے راوی میں اب بھی اتنی سقط ہے کے شہر کو ہلا کر رکھ دے۔
اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیونکر راوی کے اردگرد کالونیاں بنانے کی اجازت دی گئی کیوں کر ان سوسیٹائیز کی جگہ ہم نے ڈیم نہیں بنائے۔ ان تمام تر لوگوں کو اپنا آڈٹ خود کرنا چائیے جنہوں نے کالونیاں بنانے کی اجازت دی اور آج وہ اپنے دیے ہوئے پراجیکٹ پر سوسائٹی کے مالک پر تنقید کر رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے جو پچھلے 35 سال سے اقتدار میں رہے ہیں۔
راوی جو کھبی چین ہی چین لکھ رہا تھا اچانک کیوں بھپر گیا۔ کیوں تمام تر دریاؤں کو عوام الناس پرغصہ آیا کیونکہ ہم نے دریاؤں کے رخ بدلے،دریاؤں کو تباہ کیا، دریاؤں میں سارے شہر کا گند ڈالا، دریا کی ملکیت کو ختم کرکے انکی ملکیت پر قبضہ کیا؟ جبکہ بطور انسان ہمیں یہ معلوم ہونا چائیے کہ ہمیں کسی کی جگہ پر قبضہ نہیں کرنا چائیے، کسی کی جگہ پر اپنا گند نہیں ڈالنا چائیے،کسی کے راستے میں سے اپنا راستہ نہیں نکالنا چائیے۔ اب ہم نے تمام تر غیر انسانی ھرکتیں کی اور کی بھی قدرت کے ساتھ۔ اور قدرت نے ابھی صرف اپنا تھوڑا سا غصہ دیکھا ہے۔ اور یہ حال ہے
میری عوام الناس سے ہاتھ پاؤں اور جسم کے تمام اعضاء جوڑ کر گزارش ہے کہ ایسے کسی پراجیکٹ پر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو بالکل داؤ پر مت لگائیں جسکا خمیازہ ہمیں نہیں تو آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے۔
اس کالم کو لکھتے ہوئے محترم رضا بھائی سے کی گئی گفتگو یاد آ گئی انہون نے بتایا کہ انکے بھائیوں نے پارک ویو میں پلاٹ کی خریداری کی ہے اور انہیں بھی پلاٹس خریدنے کی تلقین کر رہے ہیں اوریہ کہہ کر منایا جا رہا ہے کہ پتہ نہیں پارک ویو میں گھر بنا لینے سے پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔ میری تشویش اس بات پر تھی کہ رضا بھائی یہ نا کہہ دیں کہ میں نے پلاٹ لے لیا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا نہیں بھئی کون قدرت سے آڈا لگائے۔ انکی یہ بات دل میں بیٹھ گئی۔ فورأ سوچا کہ اس بات پر کالم بنتا ہے اور خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ دو ہفتوں میں قدرت سے لڑائی کا نتیجہ دو صوبوں نے بھگتا۔ میں انہیں بتایا ک سوسائٹی کہ چند بلاک راوی کے راستے میں ہیں انہوں نے کہا یہی تو مسئلہ ہے بارش زیادہ ہو گئی یا انڈیا نے پانی چھوڑا تو سب سے پہلے یہی بلاک متاثر ہونگے۔ میں نے انہیں کہا آپکی بات پر نا کرنے کی جرائت نا پہلے تھی نہ اب ہے۔ کیونکہ یہ بات بالکل درست ہے۔ ابھی پچھلے ہفتہ سوات اور بونیر کے سیلاب پر جہاں انکی رائے یہ تھی کہ وہاں کے رہنے والوں نے پہاڑ کھوکلے کر دیے ہیں وہیں انکی رائے یہ تھی کہ پہاڑ میں موجود بڑے پتھر دریاؤں ے انڈے ہوتے ہیں اور یہ ایک صدی یا آدھی صدی کہ بعد انہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ضرور آتا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ کچھ دیر سے آئی جب انہوں نے کہا کہ یہ ایک افسانہ نہیں سچ ہے اور کیونکہ یہ ایک قدرت کا نظام ہے اور پھر ایک طویل بات اس پر اور دیگر معاملات پر ہوئی۔
اب آخری اور سب سے ضروری بات وہ یہ ہے کہ پارک ویو جیسی دوسری کالونیاں جو لوگوں کو اپنے اشتہارات کی مد میں کئی سنہری باغ دیکھا کر انکی جمع پونجی لے لیتے ہیں اور لوگ بھی بغیر تحقیق کے اس بات پر راضی ہو جاتے ہیں۔ پھر یہی کالونیاں ماہانہ اور سالانہ مینٹینس، دویلپمنٹ اور دیگر فنڈز کی مد میں لاکھوں روپے لوگوں کی جیبوں سے نکلوتے ہیں اور بعد میں جب کوئی ایسی قدرتی آفت آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے ہم کیا کریں اب بھی جن کالونیاں میں یہ آفت آئی ہوئی ہے انکے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے کہ جن لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے انکے لیے کیا کرنا ہے۔ ایک بار پھر میری گزارش یہ ہی ہے کہ قدرت کے بر خلاف گئی کسی سوسائٹی میں پیسا نا لگائیں کیونکہ آج نہیں تو کل قدرت اپنا حصہ لینے واپس ضرور آئے گی۔







