Abdul Hanan Raja.Column

شکر گزاری، ذہنی دبائو سے نجات کا ذریعہ

شکر گزاری، ذہنی دبائو سے نجات کا ذریعہ
تحریر: عبد الحنان راجہ

پائیلو کوئیلو کہتے ہیں کہ ’’ شکر گزار انسان اپنے ذہن میں ایک ایسی مہربان کائنات کا تصور رکھتا ہے جو اس کی کامیابی اور ترقی میں مدد دینے کے لیے ہر وقت تیار ہے‘‘۔ معروف ماہر نفسیات ولیم جیمز کے مطابق ہر انسان کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سراہا جائے جب آپ دوسروں کو سراہتے ہیں تو دراصل انہیں مزید اچھا بننے کا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔شکر گزاری کیا ہے اس کے فوائد اور اس سے ذہنی دبائو اور فزٹریشن سے کیسے نجات مل سکتی ہے یہ ایسا موضوع جو متوسط و غریب طبقہ کی کم اور آسودہ حال افراد کی زیادہ ضرورت۔ کہ ناشکری انسانی جبلت مگر اسے تبدیل کرنا ہمارے بس میں اور پرسکون و خوش و خرم زندگی گزارنے کے لیے اس سے نجات لازم۔
شکر گزاری موجود اور دستیاب نعمتوں کی قدر کا نام اور متشکر انسان کو اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ وہ کٹھن و محدود وسائل کے باوجود دستیاب نعمتوں سے بھی ترقی کی طرف جا سکتا ہے اور یہی چیز اسے منفی سوچ اور شکوے شکایات سے بچاتی ہے۔ کہ شکوے شکایتوں کو عادت بنا لیا جائے تو انسان اچھے سے اچھے ماحول اور بہترین وسائل کے ساتھ بھی خوش نہیں رہ سکتا۔
کہا ہی نہیں جاتا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ شکر گزاری اجنبیوں کو دوست، مکان کو گھر اور عام کھانے کو خاص بنا دیتی ہے۔ اولا اگر ظاہری شکرگزاری بھی اپنا لی جائے تو جسم میں خوشی اور اطمینان کے کیمیکل Serotoninاور Dopamine کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا پے اور یہیں سے انسان کے اندر مالک حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور پھر وسائل کی کمی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ مگر ھم میں سے کتنوں کی صبح کا آغاز قدرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد شکر گزاری سے ہوتا ہے اور دن کا اختتام ناشکری پر توبہ کے ساتھ۔ باعث ندامت نہیں کہ چہار سو نعمتیں اور قدرت کی فیاضیاں، مگر پھر بھی جانے انجانے، شعور اور لاشعور میں گلے شکوے اور شکایتیں۔ لمحہ بھر کو رکیے اور تصور میں صرف مفت میں ہر لحظہ آتی سانس جیسی نعمت کا شمار اور اس پر غور کریں تو رونگٹے کھڑے کر دینے والے اعداد و شمار ، عام آدمی ایک گھنٹہ میں اوسطا 1080مرتبہ سانس لینے کا عمل کرتا ہے ایک دن 26 ہزار کے لگ بھگ۔ مگر ٹھہرئیے ہمیں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں اور نہ اس نعمت کی عظمت کا۔ اس کی قدر و قیمت معلوم کرنے کے لیے ہمیں کسی ایسے مریض کے پاس جانا ہو گا کہ جو سانس لینے کے لیے آکسیجن کا محتاج۔ یقین جانیے کہ ایسے مریض کے ساتھ گزرے چند لمحے نہ صرف زندگی کی حقیقت سے روشناس کرا سکتے ہیں بلکہ شکر گزاری کے جذبہ کو بیدار اور پھر جبین نیاز خود بخود قادر مطلق کے حضور جھکنے پر مجبور ہو گی۔ تشکر کے جذبات کو سرگرم عمل کرنے کے لیے یہ نسخہ اکسیر ، سورہ رحمٰن میں انسان کو عطا کی گئی ظاہری و باطنی نعتمتوں کا تواتر سے ذکر۔ اور پھر قادر مطلق نے اپنی تخلیقات، عنایات، نوازشات کا ذکر کر کے بار بار جھجنجوڑا ہے کہ ’’ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے ‘‘، اس آیت کا ایک سورہ میں 31بار بیان کا مقصد انسان کو لاتعداد نعمتوں کے شکر کی یاد دلانا ہی تو ہے۔ مفسرین قرآن ظاہری نعنتوں میں صحت اور محاسن اخلاق جبکہ باطنی نعتیں معرفت اور عقل کو گردانتے ہیں۔
بھوک نعمت مگر شاید ان کے لیے جو اس سے محروم، مگر دوسری طرف لعنت بھی۔ کہ وہ جسم کی نہیں ہوس کی ہوتی ہے۔ مال و دولت جاہ و مرتبہ، شہرت اور کہیں طاقت کی۔ ہمارے ارد گرد بیسیوں ایسے جو بھوک کی نعمت سے محروم اور انکے جسم و روح کا رشتہ دن بھر میں چند گھونٹ پانی اور مشروبات سے برقرار۔ سات ارب سے زائد انسانوں کو چھوڑیئے 26کروڑ پاکستانیوں کی خبر لیجیے تو ہم ان 22سے 23کروڑ میں شامل کہ جو قدرت کے خوان نعمت سے لطف اندوز ہی نہیں بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گندم، جو، چاول، انواح و اقسام کے پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں اور بے تحاشا کھاتے ہیں۔ اور پیزا، برگر اور سافٹ ڈرنکس تو نسل نو کی مرغوب غذائیں، ان سب نعمتوں سے پرہیز والے افراد ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈز میں انسانوں کے ہجوم کو حسرت بھری نگاہوں سے ہی تو دیکھتے ہیں۔
ایک اور نعمت کہ جس کی ناشکری کا چلن عام ہی نہیں بلکہ خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے اور وہ ہے رشتوں کے تقدس کی پامالی۔
دنیا بھر کی نوح انسانی کو چھوڑیں، اہل غزہ کو بھی اور مظلوم کشمیریوں کو بھی کہ ظلم اور بربریت نے تو ان سے رشتے ناطے ہی چھین لیے۔ ہم اپنی بات کریں تو قدرت نے ہمیں کتنے خوب صورت اور احساس کی دولت سے مالا مال رشتوں کے بندھن میں باندھ رکھا ہے، دکھ درد بانٹنے کو بہن تو کہیں بیٹیوں کی بے لوث محبت اور بیٹوں کی نعمت تو دکھ سکھ کے لیے ازواج۔ بھائی پشت پر ہیں تو کروڑوں کے سروں پر باپ کا سایہ تو کہیں ماں کی شفقت۔ قضا کسی رشتے سے محروم کرتی ہے تو باقی رشتے درد بانٹنے اور محبت نچھاور کرنے کو آن موجود۔ پھر نسبی رشتے اور اعزا و اقربا کا خلوص دستیاب۔ ان خوب صورت رشتوں کی ناقدری کی روش اب عام ہے تو چند لمحوں کو آنکھیں بند کر کے اہل غزہ اور متاثرین سیلاب بارے سوچیے اور محسوس کیجیے کہ جن کے پاس پورے کے پورے خاندان لٹ جانے کے بعد پرسہ دینے کو کوئی خونی رشتہ موجود ہے اور نہ زخموں پر مرہم رکھنے کو کوئی دوست دستیاب۔ مگر ھم ہیں کہ جھوٹی انا کی خاطر قطع تعلقی کی روش کو اپنائے بیٹھے ہیں۔
کیا یہ درست نہیں کہ ہم نے ڈپریشن اور ذہنی و روحانی دبائو کے دروازے خود اپنے لیے کھول رکھے ہیں، ہر وقت ناشکری اور تنقید و تحقیر کی عادت سے تو کہیں ناجائز ذرائع و انسانوں سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھنے کی دوڑ نے بھی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ایسے میں ہسپتالوں کا آباد ہونا تو بنتا ہے کہ مسجدیں جو ویران۔ ہماری نظر میں زندگی بلا تربیت تعلیم اور اس کے بعد روزگار کے حصول تک محدود۔ پھر ضروریات سے آسائشات اور تعیشات کا لا متناہی سلسلہ۔ احساس کی دولت باقی ہے اور نہ دوست احباب سے دکھ بانٹنے کا وقت، کہ مادیت پرستی اس سے بے نیاز کرنے کو کافی۔
آئیے! اس رحمٰن و رحیم کی نعمتوں کے شکر گزار بنیں یقین کریں سکون بھی ملے گا اور نعمتوں میں اضافہ بھی۔ اور ہر اس شخض کے بھی کہ جس نے آپ کے لیے ایک مسکراہٹ ہی بکھیری۔ گلے، شکوے شکایت کو زندگی سے نکالیں گے تو روح تازہ ہو گی اور دل شاداں و فرحاں، عبادات میں لذت نصیب ہو گی اور زندگی بھی پر سکون۔ کہ دنیا میں بے سکونی کا باعث بننے والے بے چین ہی رہتے ہیں۔
’’ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے‘‘ القرآن۔ ( سورہ ابراہیم )۔

جواب دیں

Back to top button