ColumnImtiaz Aasi

آٹا مہنگا، چینی نایاب، عوام بے زار

آٹا مہنگا، چینی نایاب، عوام بے زار
تحریر : امتیاز عاصی

ہم ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں کے سیاست دان عوام کو ماسوائے لولی پاپ دینے کے عملی طور پران کے مسائل حل کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہاں البتہ اپنے لئے وہ اندرون اور بیرون ملک بینک اکائونٹس اور جائیدادیں بناتے رہتے ہیں مگر ان سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا۔ ملک پر جو لوگ مسلط ہیں ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں جانے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ اقتدار میں آنے کے بعد غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے کے لئے قوانین میں ترامیم کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کتنے بد قسمت ہیں مبینہ طور پر کرپٹ سیاست دانوں سے انہیں کسی طرح چھٹکارا نہیں مل رہا ہے۔ عوام انہیں ووٹ نہ بھی دیں تو بھی وہ ان پر مسلط کر دیتے جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کی یہ خوبی ہے اپنے مفاد کے لئے آئین میں چند روز میں ترامیم کر لیتے ہیں جہاں عوام کا مفاد ہو اس کے لئے قانون سازی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ غریب عوام کریں بھی کیا وہ زیادہ سے زیادہ ناپسندیدہ سیاست دنوں کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ ووٹ دیں بھی تو ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں انتخابات کے نتائج دیکھ پر وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ حکومت نے 26آئینی ترمیم کرنی تھی جو چند دنوں میں کر لی مگر ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کرنے والوں کے خلاف ایکٹ میں ترامیم نہیں ہو سکتی جس کی بڑی وجہ یہ ہے اقتدار میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا تعلق کاروباری طبقات سے ہوتا ہے۔ چینی تو نایاب تھی ہی اب آتا مہنگا ہوگیا ہے۔ چینی مہنگی کرنے والوں کے خلاف چند روزہ کریک ڈائون کرنے کے بعد چپ سادھ لی گئی ہے۔ پرچون کی دکانوں پر چینی نایاب ہے۔ بڑے بڑے سٹوروں پر دستیاب ہے تو مہنگی مل رہی ہے۔ نگران دور میں گندم اسکینڈل میں جس افسر کو ہٹایا گیا تھا اسے دوبارہ ایک محکمہ کا سیکرٹری لگا دیا گیا ہے۔ جس ملک میں جواب دہی کا خوف نہ ہو ایسے ملک کبھی ترقی کر سکتے ہیں؟ یہ میری خبر نہیں ہے وفاقی حکومت کے ادارہ شماریات کا کہنا ہے آٹا دو سو ستر روپے مہنگا ہوگیا ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے ہمارا ملک گندم میں خود کفیل ہونے کے باوجود عوام مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، ملتان اور دوسرے شہروں میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بیس کلو آٹے کا تھیلا دو سو پچاس روپے تک مہنگا کر دیا گیا ہے جو حکومت کی گڈ گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں عوام اس قدر پریشان ہیں وہ کسی قسم کا احتجاج کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ ہمیں یاد ایوبی دور میں آٹا ایک روپیہ مہنگا ہوا تو عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ طلبہ تحریک چلی، راولپنڈی میں پولی ٹیکنیک کالج کا طالب علم عبدالحمید پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تو ایوب خان اس کے والدین کو پرسا دینے کے لئے پنڈی گھیب گئے اور اس کے والدین کو پانچ لاکھ روپے کی امداد دی۔ ایوب خان ایک غیرت مند انسان تھے جو احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہوگئے۔ آج کے بہت سے سیاست دانوں میں غیرت کی کمی ہے ورنہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکامی کے بعد رضاکارانہ طور پر اقتدار چھوڑ دیتے۔ عوام چینی کو رو رہے تھے کہ آٹا مہنگا ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے شماریاتی ادارے کی رپورٹ جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے اس کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں بیس کلو آٹے کا تھیلے کی قیمت میں دو سو روپے اضافہ ہو گیا ہے۔ چینی کو دیکھ پہلے برآمد کی اجازت دی اور اب چینی درآمد کی جا رہی ہے۔ شوگر ملز کی زیادہ تر سیاست دانوں کی ملکیت ہیں۔ مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کے پاس بھی شوگر ملز ہیں اگر وہ عوام کے واقعی خادم ہونے کے دعوے دار ہیں تو انہیں چاہیے تھا وہ چینی کم قیمت پر عوام کو فراہم کرنے کا انتظام کرتے۔ دراصل پاکستان کے عوام کو کوئی حضرت آیت اللہ خمینی جیسے رہنما کی اشد ضرورت ہے جو ملک لوٹنے والوں کا ایک ایک کرکے محاسبہ کرے تاکہ ہمارا ملک مبینہ کرپٹ سیاست دانوں سے پاک ہو سکے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی حکومت فوری طور پر ذخیرہ اندوزی ایکٹ میں ترمیم کرکے ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کرنے والوں کے لئے عمر قید کی سزا رکھی جائے اور ایسے لوگوں کو ضمانت نہ دی جائے تو ہمارا معاشرہ بہت حد درست ہو سکتا ہے۔ ہم مارشل لاء کے خلاف ہیں لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے فوجی ادوار میں عوام کو کم از کم اشیائے خورونوش سستے داموں تو میسر ہوتی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب لوگوں کے خلاف سر سری سماعت کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاتے ہیں جہاں ایک دور روز کے اندر کے خلاف فیصلہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں نے جمہوریت کو بدنام کر رکھا ہے حالانکہ ہمارے بہت سے سیاست دان جمہوریت پر بدنما داغ ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس محترمہ عالیہ نیلم نے پرانے مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کے لئے ماڈل کورٹس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو چیف جسٹس صاحب مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف جلد فیصلہ کرنے کے لئے خصوصی کورٹس قائم کر دیں تو بھی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ عام عدالتوں میں ایسے مقدمات کے جلد فیصلے نہیں ہو پاتے جس سے مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب دکانداروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لہذا چیف جسٹس صاحبہ کو عوام کی مشکلات کے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ عوام کے اور بھی بہت سے مسائل ہوں گے مگر اس وقت انہیں جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ اشیائے خوردونوش کی مہنگے داموں دستیابی ہے۔ ظاہر ہے ایک عام شہری کی آمدن تو وہی ہے لیکن اسے جب مہنگے داموں اشیائے خوردونوش دستیاب ہوتی ہیں تو ان کی زندگی اجیرن بند جاتی ہے۔ اے کاش ہمارے حکمرانوں کو عوام کے اس بڑے مسئلے کی فکر لاحق ہو ۔

جواب دیں

Back to top button