فطرت سے بغاوت

فطرت سے بغاوت
تحریر : ایم سرور صدیقی
یہ جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، یہ جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے اسے آپ شامت ِ اعمال بھی کہہ سکتے ہیں بلاشبہ فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ لگتا ہے ابھی کچھ خاص نہیں ہوا یہ ابھی ٹریلر ہے، پوری فلم چلی تو ہمارا کیا حشر ہوگا یہ نوشتہ دیوار پر لکھا صاف نظر آرہا ہے۔ پھر بھی عبرت حاصل نہ کی جائے تو دنیا میں شاید ہم سے زیادہ کوئی عقل کا اندھا ہی ہوگا۔ طوفانی بارشوں، کلائوڈ برسٹ، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں، لینڈ سلائیڈنگ کے دوران کیچڑ اور پتھروں کے عذاب نے جو تباہی مچائی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ زمین کا کٹائو اور رابطہ سڑکوں کی بندش ، امدادی کاموں کے تعطل اور وسائل کی کمی نے نظامِ زندگی مفلوج کر دیا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ مون سون نہیں ہے بلکہ موسمیاتی دھڑن تختہ تھا، قدرت کی طرف سے ایک بھیانک وارننگ تھی، کشمیر، بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، دیر، مانسہرہ، راولپنڈی ،کراچی اور جنوبی پنجاب کے درجنوں علاقوں میں سیلاب، کے پی کے میں MI17ہیلی کاپٹر کی تباہی، سیکڑوں جانوں کے ضیاع ، گھروں اور پلوں کی تباہی نے قیامت پرپا کرکے رکھ دی۔ جس سے یقینا پاکستانیوں کے دل بہت دکھی ہیں۔ لیکن یہ سانحات ایک وارننگ ہے، قدرت کی تکلیف دہ یاد دہانی، کہ موسمیاتی تبدیلی اب ہمارے گھروں کے اندر داخل ہوچکی ہے، جس کے تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اس کے مزید خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے دریائے راوی کے دونوں اطراف درجنوں شہر بسانے کی منظوری دی گئی تھی، جس کے لئے RUDAراوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی قائم کردی گئی، اب حکومت کی طرف سے اعلان کئے جارہے ہیں کہ دریائے راوی کے گردو نواح کی ہائوسنگ سکیموں اور صنعتی زونز سیلاب سے بچائو کے لئے اپنا انتظام خود کر لیں، حالانکہ حکومت کو یہ پہلے سوچنا چاہیے تھا، جب دریائے راوی کے گردو نواح کی اراضی پر لینڈ مافیا کو ہائوسنگ سکیمیں بنانے کی اجازت دی گئی تھی، اسی طرح راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی میں جنگلات کا صفایا کرکے اپنے پسندیدہ افراد کو نوازا گیا تھا، ملتان میں تو ایک ہائوسنگ سکیم بنانے کے لئے کئی ہزار ایکڑ پر قائم ایکسپورٹ کوالٹی کے آموں کے باغات کو بے دردی سے ذبح کر دیا گیا۔ یہی صورتحال ملک کے دوسرے شہروں کی ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی ٹمبر اور لینڈ مافیا نے بے دردی سے جنگلات کا خاتمہ کر دیا، یہ سب کرپٹ افسروں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں چھپے ان کے سر پرستوں کی مدد سے ہورہا تھا، یعنی یہ حالیہ تباہی اور ہزاروں افراد کی ہلاکت فطرت کے منافی عمل کا رد ِ عمل ہے۔ اس کے باوجود اشرافیہ کو اس کا مطلق احساس نہیں، کیونکہ نقصان سے دوچار ہونے والے اور جاں بحق ہونے والے عام پاکستانی تھے اور عام شہریوں کی حیثیت ان کے نزدیک کیڑے مکوڑوں جیسی ہے۔
ہم سب کو اس کا ادراک کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں ایسے سانحات پر یہ آفات محض قدرتی نہیں یہ لالچی، سنگ دل اور ہر قیمت پر وسائل لوٹنے والوں کا طرز ِ عمل ہے، اس لئے حکومت کو اب عقل کے ناخن لینا ہوں گے، کیونکہ طوفانی بارشوں، کلائوڈ برسٹ، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں، لینڈسلائیڈنگ کے دوران کیچڑ اور پتھروں کا عذاب اب معمول بن چْکا ہے۔ ملک کی تازہ ترین صورت ِ حال کی روشنی میں فیصلہ کن کارروائی، ٹھوس منصوبہ بندی اور موثر حکمت ِ عملی سے مزید سانحات سے بچا جا سکتا ہے، اس کے لئے بے ہنگم انداز میں قائم ہونے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ صرف نئے شہر بسانے کیلئے ایسے منصوبوں کی اجازت دینی چاہیے مگر اس میں بھی اراضی کی حد مقرر کی جائے کہ زرعی زمین کا اتنے فی صد مختص کیا جاسکتا ہے تاکہ شہریوں کو دودھ ، فروٹ اور سبزیاں وافر میسر آسکیں خوف ناک بات یہ ہے کہ اس سال 2025کے کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان کا حصہ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں صرف 1%ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہر سال تواتر سے انسانی المیے ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہورہے ہیں۔ حکومتوں کو اب الفاظ سے آگے بڑھنا چاہیے، کیونکہ یہ آفات اچانک نہیں آتی اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں، اس کا ہمیں کئی سال سے ادراک تھا لیکن حکومتی مشینری نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی تھیں، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ہماری تیاریاں، پالیسیاں اور عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان کا حال بھی عجیب ہے، بارشیں نہ ہوں تو قحط سالی۔۔ قوم کو نماز استسقاء کی اپیلیں، بارشیں ہونے لگیں تو پورا ملک ڈوب جاتاہے، اس سال لاہور، کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کا جو حشرہوا اس کی تفصیلات میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس پس منظر میں ہماری ترجیحات میں یہ کام اب ترجیحی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے محفوظ رہا جائے۔ پورے ملک میں جنگلات کی بے دریغ، بلاجواز کٹائی بند ہونی چاہئے۔ دریائوں، ندی نالوں اور سیلابی راستوں کی نشاندہی کی جائے اور اس کے لئے رائے عامہ کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے، سب سے بڑھ کر نشان دہی والے علاقوں میں ہر قسم کی رہائشی و کمرشل سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جائے اور اس پر سختی سے عمل بھی کرایا جائے۔ ماحولیاتی ماڈلنگ، سیلاب کی پیش گوئی اور سیلاب کے انتباہ کا نظام موثر ہونا چاہئے جوکہ ڈیجیٹل دور میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں، اس لے لئے سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جو سب سے سستا اور بہترین ہے۔ قدرتی آفات کے وقت آفت زدہ علاقوں میں ریسکیو اور رسپانس کی ایپ ہونی چاہئے اس کے لئے1122جیسا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ شمالی علاقہ جات، تفریحی مقامات اور دور دراز میں جانے والے سیاحوں کی ممکنہ طور پر سیلابی علاقوں میں آمدورفت مانیٹر ہو وہاں قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور ان سے بدتمیزی کرنے والے دکانداروں اور ہوٹل انتظامیہ کا سختی سے محاسبہ کیا جائے، ان اقدامات سے سیاحت کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پلوں، سڑکوں اور دیگر تعمیرات کے سٹینڈرڈ اور کوڈ کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے اپ گریڈ کیا جائے اور اس کے لئے سالانہ بنیاد پر پراگرس منٹین کی جائے۔ قدرتی اور موسمیاتی آفتوں سے بچائو سے منسلک تمام محکموں/افسروں کا آپس میں رابطے کو مزید فعال بنایا جائے اور ان محکموں میں کام کرنے والے فیصلہ سازوں اور کارکنوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کی جدید سائنس پر تربیت اور کیپیسٹی بلڈ کرنی چاہئے۔ موسم کے بدلتے ہوئے رحجان، عالمی اداروں سے موسمیاتی معلومات کو موجودہ عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے، موسم کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر متاثرین کی مدد اور بحالی کے لئے ایک ہمہ جہت تنظیم کی ضرورت ہے ۔ غیر ممالک میں تو جانوروں کو بچانے کیلئے ایئر سروس کا بہترین انتظام ہے، جبکہ پاکستان میں سیلابی ریلوں میں پھنسے، آتشزدگی میں گھرے اور قدرتی آفات کے متاثرین امداد آتے آتے جان سے گزر جاتے ہیں۔ متاثرین کو بچانے کے منصوبوں کے لئے فنڈز مخصوص کئے جائیں۔ عوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچائو کے لئے شعور بیدار کرنا چاہئے اور عوام الناس کی تربیت کرنی چاہئے خراب موسم میں سیاحت پر پابندی کو موثر بنانے کی ضرورت اور اہمیت کے پیش ِ نظر سفری پابندیاں عائد کرکے لوگوں کو ہلاکتوں سے بچایا جاسکتا ہے۔
یاد رکھیں طوفانی بارشوں، کلائوڈ برسٹ، سیلابی ریلوں، لینڈسلائڈنگ کے دوران کیچڑ اور پتھروں کا عذاب فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے، اس لئے کبھی قدرت کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے، جنگلات کی بے ہنگم کٹائی، بااثر شخصیات کی دریائوں کے کنارے ہوٹلوں، فارم ہائوسز، گھروں کی تعمیر اور راستوں قبضے کرنا بڑی تباہی کا سبب ہے۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف ایکشن لے۔ سیلابی ریلوں سے نمٹنے کے لئے ہر شہر میں ماضی کی طرح تالاب، نئے ندی نالے اور چھوٹی نہریں قائم کی جائیں تاکہ سیلاب کا زور توڑنے کے لئے متبادل ذرائع میسر آسکیں اور لوگوں کو تباہی سے محفوظ رکھنے کی تدبیر کی جاسکے اور جس طرح بھارت نے اپنے دریائوں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر نہ صرف پانی کو کنٹرول کرکے اپنے لئے مفید بنا دیا ہے بعینہ ہم بھی چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر بناکر تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ قوم پرست جماعتوں نے کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بناکر پاکستان کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے، حکومت کو اس کا متبادل بھی سوچنا ہوگا۔ کم کپیسٹی کے درجنوں ڈیم اس مسئلے کا حل ہیں، دوسرا سیلاب سے نبرد آزما ہونے کے لئے پورے ملک میں شجرکاری کی مربوط مہم کا آغاز کیا جائے، مصنوعی جنگلات لگائے جائیں، اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔







