Column

بھارتی آبی جارحیت کے پاکستان پر اثرات

بھارتی آبی جارحیت کے پاکستان پر اثرات
تحریر : ساجد علی شمس

برصغیر کی جغرافیائی اور آبی تقسیم کی تاریخ ہمیشہ تنازعات، اختلافات اور شکوک و شبہات سے عبارت رہی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جب دریائوں کی تقسیم کا مسئلہ اٹھا تو اسے وقتی طور پر ایک معاہدے، یعنی سندھ طاس معاہدے، کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کی روح کو جس بے دردی سے مسخ کیا گیا اور جس طرح بھارت نے آبی وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا، وہ نہ صرف اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک سنگین خطرے کے مترادف ہے۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی آبی جارحیت کی زد میں ہے جہاں بھارت کی جانب سے دریائے ستلج اور راوی میں غیر معمولی مقدار میں پانی چھوڑنے سے ملک کے کئی اضلاع میں سیلاب کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہو۔ ماضی میں بھی جب کبھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھی، بھارت نے دریائوں کے بہائو کو روک کر یا اچانک کھول کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے دریائی ستلج اور دریائے راوی میں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب کے سرحدی علاقے شدید خطرے سے دوچار ہو گئے۔ قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر اور دیگر اضلاع میں نشیبی علاقے زیر آب آنے لگے ہیں، ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں، اور کسان اپنی کھڑی فصلوں کو پانی میں ڈوبتا دیکھ کر کفِ افسوس مل رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک پہلے ہی معاشی بدحالی، مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، اور ایسے میں ایک بڑے پیمانے پر آنے والا سیلاب کسی قومی المیے سے کم نہیں ہو گا۔ بھارت کا یہ رویہ دراصل ایک وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے۔ وہ آبی وسائل کو محض توانائی پیدا کرنے یا زرعی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ انہیں ایک جغرافیائی اور اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر بروئے کار لاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ اگرچہ پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر مکمل حقوق دیتا ہے، اور ستلج، راوی اور بیاس بھارت کے حصے میں آتے ہیں، مگر معاہدے میں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ بھارت ان دریائوں میں ایسے اقدامات نہیں کرے گا جو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں کے بہائو کو متاثر کریں یا نیچے کی طرف آنے والے علاقوں کے لیے خطرہ بنیں۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت نے ان دریائوں پر کئی ڈیم اور بیراج بنا رکھے ہیں اور جب چاہے پانی روک لیتا ہے اور جب چاہے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ عمل معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور ایک بین الاقوامی جرم ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس آبی جارحیت کا مقابلہ کس طرح کرے۔ بدقسمتی سے ہماری داخلی کمزوریاں اور انتظامی نااہلیاں ایسے مواقع پر اور بھی نمایاں ہو جاتی ہیں۔ محکمہ موسمیات اور فلڈ کنٹرول ادارے بروقت انتباہ جاری تو کر دیتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی استعداد کمزور ہے، ریلیف کیمپ ناکافی ہیں، ان حالات میں جب بھارت پانی چھوڑتا ہے تو نقصان دوچند ہو جاتا ہے۔
مزید برآں، یہ معاملہ محض سیلابی پانی کے بہائو کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے بارہا یہ دھمکی دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کا پانی بند کر دے گا، اور ماضی میں اس کی قیادت کھلے عام یہ بیانات دے چکی ہے کہ ’’ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ ایسے بیانات اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ بھارت آبی وسائل کو پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ عالمی برادری کو بھی اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ پانی جیسی بنیادی ضرورت کو سیاسی اور عسکری دبا کے لیے استعمال کرنا بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر بھرپور طریقے سے اٹھائے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور ورلڈ بینک جیسے فورمز پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کو اجاگر کیا جائے۔ ساتھ ہی اندرونِ ملک سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ مضبوط ڈیموں اور ذخائر کی تعمیر، جدید موسمیاتی ٹیکنالوجی کا استعمال، دریاں کے کناروں پر حفاظتی پشتوں کی مرمت اور دیہی علاقوں میں عوامی آگاہی مہم ایسے اقدامات ہیں جن کے بغیر ہم ہر سال آنے والے اس بحران سے نہیں بچ سکتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے برصغیر میں بارشوں کے پیٹرن کو غیر متوقع بنا دیا ہے۔ کبھی خشک سالی تو کبھی اچانک طوفانی بارشیں، کبھی برفانی گلیشیئرز کے تیز پگھلائو نے دریائوں میں غیر متوقع پانی کا بہائو پیدا کر دیا ہے۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی خطرات سے بچائو کے لیے عالمی تعاون کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے انفرا سٹرکچر کو مضبوط بنا سکے اور عوام کو مستقبل کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھ سکے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بھارت کی آبی جارحیت محض ایک سفارتی یا تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو ہماری قومی سلامتی، معیشت اور عوامی بقا سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم نے اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ، مربوط اور دیرپا اقدامات نہ کیے تو آنے والے سالوں میں ہم محض سیلابوں سے لڑتے رہیں گے اور بھارت کی آبی یلغار ہمارے لیے ایک مستقل عذاب بن جائے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی داخلی صفوں کو مضبوط کرے، عالمی فورمز پر اپنی آواز بلند کرے اور اس مسئلے کو ایک قومی ترجیح کے طور پر لے۔ پانی زندگی ہے، اور جس قوم کے پاس اپنے پانی کا کنٹرول نہ ہو، اس کی آزادی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

ساجد علی شمس

جواب دیں

Back to top button