
کندن
تحریر : محمد مبشرانوار(ریاض)
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ علم غیب بلا شرکت غیرے رب العالمین کے اختیار میں ہے جبکہ بطور انسان ہماری فطرت و جبلت میں تجسس بدرجہ اتم موجود ہے تاہم ایسے انسان بھی موجود ہیں جو اس تجسس پر قابو رکھتے ہیں اور بلاوجہ غیر ضروری معلومات پر متجسس رہنے سے گریز کرتے ہیں، قدرتی نظام کو تسلیم کرتے ہیں اور ہر امر کے مقررہ وقت پر رو پذیر ہونے تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اکثریت مستقبل کے متعلق جاننے کے لئے متجسس رہتی ہے بالخصوص مشکل حالات کے وقت، انسان کسی تنکے کے سہارے کی مانند، ایسی کسی پیش گوئی ، جو اسے بہتر مستقبل کی نوید سنائے، جان کر اپنی ہمت باندھتا ہے اور نئے سرے سے مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ مستقبل کے متعلق جاننے کے حوالے سے سب سے زیادہ متجسس جن افراد کو پایا گیا ہے وہ لوگ ہیں، جن کے پاس کچھ اختیار یا اقتدار رہا ہے، وہ اپنے اس اختیار یا اقتدار کی طوالت کے حوالے سے بالعموم متفکر و متجسس پائے جاتے ہیں، دروغ بر گردن راوی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے سن تھا کہ کسی ستارہ شناس نے انہیں، ان کے نصف النہار پر بتایا تھا کہ ملک پاکستان میں اگلے مخصوص عرصہ تک انگریزی حرف’’ Z‘‘ کے نام سے شروع ہونے والے شخص کی حکومت رہے گی۔ اس ایک پیش گوئی پر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی مقبولیت کے زعم میں یہ خیال تک نہ رہا اور انہوں نے Zہی سے شروع ہونے والے نام کے شخص ضیاء الحق کو اپنا آرمی چیف بنا لیا اور چند برس میں ہی ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر، مارشل لاء کا نفاذ کر دیا، حکومت بلاشبہ ایک ایسے شخص ہی کی رہی جس کے نام کا پہلا حرف Zسے شروع ہوتا تھا مگر بندہ ذوالفقار علی بھٹو نہیں تھا۔ مراد یہ ہے کہ ستارہ شناسی کا علم کس قدر درست ہے، اگر یہ واقعہ درست ہے تو اس علم کو اس حد تک درست تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن کیا انسان تمام پہلوئوں کا احاطہ کر سکتا ہے؟ جیسے ذوالفقار علی بھٹو اس پیش گوئی کو صد فیصد اپنی ذات پر منطبق کرتے رہے جبکہ خود ہی ایک ایسے شخص کو، جسے اپنا وفادار و مطیع سمجھتے رہے، کو ایک ایسی ذمہ داری تفویض کر دی، ایک ایسا اختیار دے ڈالا کہ جس کی بدولت وہ بآسانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو گرا سکتا تھا اور اس نے حکومت گرا نے کے بعد اس معین مدت تک ملک میں حکمرانی بھی کی۔ گو کہ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ ستارہ شناسوں کو بھی ستاروں کی اگلی چالوں کا سو فیصد علم نہیں ہوتا لیکن علم اور تجربہ سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ اگلی چال کیا ہو سکتی ہے جبکہ کبھی کبھار یہ چال توقع کے الٹ بھی ہوجاتی ہے، جس سے پیش گوئیاں، حقیقت کا روپ نہیں دھار پاتی اور آج کل بالعموم ستارہ شناسوں کی جانب سے بری الذمہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ غیب کا علم بہرطور اللہ کے پاس ہے اور وہی حقیقت جانتا ہے، حقیقتا بھی ایسا ہی ہے۔ ایسی ہی صورتحال کے متعلق تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں رہی ہیں کہ کسی نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ اگر طویل عرصہ تک حکومت کرنا ہے تو مرکز، پنجاب میں اپنے ساتھ رفقاء میں سے ایسے افراد منتخب کریں کہ جن کے نام ابتدائی حرف’’ ع‘‘ ہو، اسی لئے وزیراعظم ’’ عمران خان‘‘ کے ساتھ صدر ’’ عارف علوی‘‘ اور وزیر اعلیٰ ’’ عثمان بزدار‘‘ کے نام قرعہ نکلا تھا۔ یہاں عمران حکومت کی طوالت تو بہرحال ممکن نہیں ہوئی البتہ عارف علوی اپنی مدت سے زیادہ صدر کے عہدے پر فائز رہے، جبکہ عثمان بزدار وقت سے پہلے اقتدار سے الگ کئے گئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پردہ سیاست سے بھی کہیں دور جا چکے اور اب خال ہی ان کا نام سیاست میں سنائی دیتا ہے۔
لیکن یہاں معاملہ ختم نہیں ہوتا اور اس کھیل میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت آتا ہے جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہوتی ہے اور کوشش و خواہش کے باوجود جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوتی بلکہ نئے آرمی چیف کا تقرر ہوتا ہے۔ نئی تقرری میں، ماضی کی نسبت زیادہ وقت لیا جاتا ہے اور چند دن قبل، جب موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں محض دو دن باقی رہتے ہیں، انہیں چیف آف آرمی نامزد کر دیا جاتا ہے، شریف خاندان و آرمی چیف کی تعیناتی کی روایت کے برعکس کہ ہمیشہ جونیئر جنرل کو آرمی چیف بنایا جاتا رہا ہے، اس کے برعکس اس مرتبہ سب سے سینئر جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جاتا ہے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ نئے نامزد آرمی چیف کے نام کا ابتدائی حرف بھی’’ ع‘‘ ہے گو کہ نئے آرمی چیف کا پورا نام حافظ سید عاصم منیر ہے لیکن بالعموم انہیں جس نام سے پکارا جاتا ہے، اس کا ابتدائی حرف ’’ ع‘‘ ہے اور میری دانست میں ( حتمی رائے نہیں کہ کوئی ستارہ شناس ہی اس پر بہتر روشنی ڈال سکتا ہے) ستارہ شناسی یا ایسے علوم میں بہرطور اہمیت پکارے جانے والے نام کی ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے ابتدائی حرف کا تعین بھی ہوتا ہے۔ گو کہ عمران خان نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ہی حکومت سے نکالے جا چکے تھے لیکن نئے آرمی چیف کی تعیناتی، حسن اتفاق کہیں یا شریف خاندان کی سوچی سمجھی چال کہ بطور وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف بطور ڈی جی آئی ایس آئی، تعلقات میں دراڑوں کو بخوبی استعمال کیا ہے جس کا مسلسل فائدہ بہرحال شریف خاندان یا عمران مخالف سیاستدانوں کو ہوا ہے، جو ایک سیاستدان کا حق ہے۔
اس پس منظر کے بعد، جو عمران خان اور اس کی سیاسی جماعت کے ساتھ ہوا یا ہو رہا ہے، وہ نوشتہ دیوار تھا کہ پاکستانی سیاسی افق ایسے سیاسی دائو پیچ معرض وجود میں آتے ہی دیکھ رہا ہے البتہ پاکستانی افق سیاست نے موجودہ منظر کا مشاہدہ تیسری مرتبہ کیا ہے کہ جب کوئی سیاستدان ایسے ظلم و جبر و دھونس و دھاندلی کے خلاف سینہ سپر ہوا ہے کہ پہلی مرتبہ فاطمہ جناح کو تصور کر لیں، دوسری مرتبہ شیخ مجیب الرحمن و ذوالفقار علی بھٹو کو تصور کر لیں اور اب تیسری مرتبہ عمران خان ایک عزم کے ساتھ تاحال فسطائیت کے خلاف اور قانون کی حکمرانی و بالا دستی کے لئے کھڑا ہے۔ خود ساختہ جمہوریت پسندوں کی نظر دوڑایں تو ایک طرف ’’ عوام کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کے دعویدار، گھٹنوں میں سر دے ہر حکم پر آمنا و صدقنا کہتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے جمہوریت نواز ووٹرز کا گلا گھونٹنے کے لئے کسی بھی حد سے گزر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے محکمے، شاہی /حکمران خاندان کے بے دام غلام بنے، ووٹرز کا بھرکس نکال رہے ہیں اور اس امر کا ثبوت دے رہے ہیں کہ چونکہ ان ووٹرز کا ووٹ مخالفت میں رہا ہے لہذا اس ووٹ کو جی بھر کے بے عزت کرو، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، تیسری طرف اسلام کے علمبردار ہیں کہ جب تک انہیں حصہ بقدر جثہ نصیب ہوتا رہے، ان کی بلا سے کوئی عورت حکمران ہے یا کوئی مرد، سب حلال ہے، چوتھی طرف سرخ پوشوں کی جمہوریت پسندی کا جنازہ تو اس روز نکل گیا تھا جب پارلیمان میں ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی کارگزاری کے بعد عدلیہ کی طرف دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ جتنی بے توقیری عدلیہ کی آج ہے، کسی بھی وقت نہیں رہی ہو گی، ایک آئین و قانون پسند کو راستے سے ہٹانے کے لئے جو جتن کئے گئے، سب کے سامنے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتوں کے ہاتھ پائوں بندھے ہیں اور وہ مقدمات سننے اور انصاف دینے سے قاصر ہیں۔ آزادی اظہار کا گلا تو پیکا جیسے قوانین سے گھونٹا جا چکا، کہنہ مشق و بے باک صحافیوں کے لئے پاکستان کی فضا گھٹن زدہ اور ماحول سراسیمہ و خوفزدہ ہو چکا، بے شمار ملک چھوڑ چکے اور جو سینئر ترین صحافی ملک میں بچے ہیں، جن کے ذریعے پبلک پلس چیک کرنے کے لئے باتیں کرائی جاتی ہیں، بعد ازاں اپنی باتوں کی تردید کرکے، ان صحافیوں کا قد کاٹھ اور ساکھ کو راکھ کا ڈھیر بنایا جارہا ہے۔ مراد سہیل وڑائچ کا ایک کالم جس میں خواہش معافی کا تقاضہ ہے اور معاملات ہموار ہو جانے کی نوید ہے، کو سہیل وڑائچ کی جانب سے بے پر کی اڑانے یا ذاتی مفادات کا شاخسانہ قرار دے دیا گیا ہے، سہیل وڑائچ نے اولا کچھ مزاحمت کی لیکن بعد ازاں معافی نامہ ہی لکھ دیا اور قیدی نمبر 804کو بھی اس کی تلقین کی۔ سہیل وڑائچ جیسے کہنہ مشق صحافی سے تو توقع تھی کہ جیسے کل تک نواز شریف کو خم ٹھونک کر مقتدرہ کے خلاف کھڑے ہونے کا مشورہ دیا تھا، آج بھی نواز شریف و ہمنوا کو عمران کے ساتھ کھڑا ہونے کا مشورہ دیتے، لیکن حیران کن طور پر سہیل وڑائچ نے عمران خان کو معافی مانگنے کا مشورہ دے دیا، کیا یہ مشورہ اس لئے دیا کہ انہیں یقین تھا کہ عمران خان معافی نہیں مانگے گا اور نواز شریف خم ٹھونک کر کھڑا نہیں ہوگا؟۔ ویسے ذاتی طور پر مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کے خلاف دو سو سے زائد مقدمات صرف معافی منگوانے کے لئے بنائے گئے ہیں؟، اصولا تو مقدمات کسی ’’ جرم‘‘ کی بنا پر بنائے جاتے ہیں اور جرم کی ’’ سزا‘‘ ہوتی ہے ’’ معافی‘‘ نہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ نواز شریف کے جرائم، معافی منگوانے والوں کے نزدیک قانون سے بالا ہیں، انہیں یا کسی بھی مجرم کو، جرائم کی سزا نہیں ملنی چاہئے؟۔ ستارہ شناس تو آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان واپس آرہا ہے، کس طرح اس کا مجھے علم نہیں اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سونا بھٹی میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے اور عمران کے متعلق ان کے دعوے یہی ہیں، وقت بتائے گا کہ عمران اس راستے میں اپنی جان قربان کرتا ہے یا کندن بن کر باہر نکلتا ہے!!!







