Column

ماحولیاتی تبدیلیاں، دُنیا پاکستان کا ساتھ دے

ماحولیاتی تبدیلیاں، دُنیا
پاکستان کا ساتھ دے
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جہاں مسلسل بارشوں سے وطن عزیز میں بڑی تباہ کاریاں مچی ہیں، 800سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی تیار فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، مون سون کے اسپیل مسلسل شدّت اختیار کر رہے ہیں، اس وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگ بے گھری کا دُکھ جھیلنے پر مجبور ہیں۔ پہلے ہی سیلابی صورت حال درپیش تھی۔ ملک کے تمام حصّوں میں شدید بارشوں سے بڑے جانی و مالی نقصانات ہوئے تھے۔ ایسے میں گزشتہ روز بھارت نے ایک بار پھر آبی دہشت گردی کرکے پاکستان کو مزید مشکلات کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ دریائے ستلج اور راوی میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ہزاروں لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ بے شمار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ سیلابی ریلے اُن کی تیار فصلیں تباہ کر چکے ہیں۔ پنجاب میں بھارتی آبی جارحیت کے باعث صورت حال خاصی سنگین ہوچکی ہے۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ملک و قوم کے لیے عذاب جان بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پڑوسی اپنے حصے کی مصیبت پاکستان کے سر منڈھ رہا ہے۔ ملک و قوم اس وقت انتہائی نازک اور مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن ہر سال آنے والی قدرتی آفات اس کو بھاری جانی و مالی نقصانات سے دوچار کرتی ہیں۔ اس تناظر میں ہونا تو یہ چاہیے کہ عالمی ادارے اور مہذب دُنیا اس مشکل سے پاکستان کو نکالنے میں مدد کرے اور اُس کے ساتھ تعاون کرے، کیونکہ وطن عزیز تن تنہا ان مشکلات سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اُسے تعاون اور مدد ہر صورت درکار ہوگا۔ اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور دُنیا کو باور کرایا ہے کہ اسے اس مشکل صورت حال میں پاکستان کی مدد کو آگے آنا ہوگا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کو پاکستان کی مدد کرنا ہوگی۔ وفاقی دارالحکومت میں نیو انرجی وہیکل پالیسی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک میں شامل ہے، گرین گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی انرجی پاکستان کے ماحول دوست اقدام کی جانب اہم پیش رفت ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا چیلنج ہے، اکیلے نہیں نمٹ سکتے، ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کو پاکستان کی مدد کرنا ہوگی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی معاونت پر شکر گزار ہیں، 2022ء کے سیلاب سے پاکستان کو 30ارب کا نقصان ہوا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بادل پھٹنے، فلیش فلڈ، طغیانی اور سیلاب سے پاکستان کو بھاری مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا، خیبر پختونخوا اِس نقصان میں سب سے زیادہ متاثر ہوا، خیبر پختونخوا میں بے شمار گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوانوں کو بہت جلد میرٹ پر ایک لاکھ طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کریں گے، نوجوان کو الیکٹرک بائیکس فراہم کی گئی ہیں۔ مزید برآں وزیراعظم نے ایئر چیف مارشل سے ملاقات میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ معرکہ حق کے دوران پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کے جہاز گرا کر اسے کاری ضرب لگائی۔ پی ایم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف سے چیف آف دی ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے ملاقات کی۔ اہم ملاقات میں وزیراعظم نے وطن عزیز کے دفاع کے حوالے سے پاک فضائیہ کے کردار کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاک فضائیہ کے شاہین وطن عزیز کے حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔ معرکہ حق کے دوران پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کے جہاز گرا کر اسے کاری ضرب لگائی۔ ملاقات میں پاک فضائیہ کے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دوسری طرف تازہ اطلاعات کے مطابق بھارت کی جانب سے دریائوں میں پانی چھوڑے جانے کے بعد پنجاب کے دریائوں ستلج، راوی اور چناب میں سیلابی صورتحال سنگین رخ اختیار کر گئی جبکہ آبپاشی اسٹرکچر کو بچانے کے لیے چناب میں ہیڈ قادرآباد بند دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ بے شمار دیہات زیر آب آگئے، بے شمار شہری سیلابی صورت حال سے متاثر ہیں۔ دریائے چناب میں ہیڈ قادرآباد بند توڑنے کے بعد سمبڑیال سمیت قریبی گائوں اور وزیرآباد شہر میں بھی داخل ہوگیا۔ پلکھو نالہ بپھرنے سے وزیر آباد کی چیمہ کالونی، جناح کالونی، حاجی پورہ، محلہ شیش محل، سوہدرہ میں بھی پانی داخل ہوگیا جس کے سبب عوام گھروں میں محصور ہوگئے۔ بھارتی آبی جارحیت کے بعد پنجاب کے ندی نالوں اور دریائوں میں طغیانی سے سیکڑوں ایکڑ اراضی زیر آب آ چکی ہے۔ پسرور کے گائوں کوٹلی باوا فقیر چن میں نالہ ڈیک میں طغیانی کے باعت گائوں کا مقامی قبرستان ختم ہوگیا جبکہ چاول کی تیار فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ وہ اس صورت حال سے تن تنہا نہیں نمٹ سکتا۔ اُسے ماضی میں بھی اربوں روپے کے نقصانات بھگتنے پڑے، اس بار بھی کم نقصان نہیں ہوا ہے۔ بھارتی آبی جارحیت ان نقصانات کو مزید دوچند کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ دُنیا کو اس موقع پر آگے آکر پاکستان کے ساتھ دست تعاون دراز کرتے ہوئے اس کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ ماحولیاتی تغیر میں وطن عزیز کا حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ سب سے زیادہ خمیازہ یہی بھگت رہا ہے اور مسلسل بھگت رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کو آبی جارحیت سے روکنے کے لیے پاکستان کو موثر حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے کہ آئندہ بھارت ایسا اقدام کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
صاف پانی سے محروم دو ارب انسان
پانی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان آب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک عزیز کی آبادی کا بڑا حصّہ اکیسویں صدی میں بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ صاف پانی میسر نہ آنے کے باعث ہمارے ملک میں پانچ سال سے کم عمر اطفال کی شرح اموات دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ صاف پانی نہ ہونے کے باعث ملکی آبادی کے بڑے حصّے کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گندے اور آلودہ پانی پینے کے سبب لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی بڑی تعداد میں زیست کی بازی ہار جاتے ہیں۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دُنیا بھر میں دو ارب سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ دنیا بھر میں اب بھی 2ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں، ہر چار میں سے ایک شخص کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق 10کروڑ سے زیادہ لوگ اب بھی دریا، تالاب اور نہروں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پانی، صفائی اور حفظانِ صحت کی ناکافی سہولتیں اربوں لوگوں کو بیماریوں کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسے 28ممالک جن میں زیادہ تر کا تعلق افریقہ سے ہے، ان میں اب بھی ہر چار میں سے ایک سے زائد افراد بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کی رپورٹ تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اس تناظر میں مہذب دُنیا اور اداروں کو آگے بڑھ کر صاف پانی سے محروم دُنیا کے باشندوں کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں بھی صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں، یہاں بھی کروڑوں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ وہ جس طرح کا پانی استعمال کرتے ہیں، وہ پینے کے قابل نہیں۔ ملک میں ویسے ہی آبی قلت کا سامنا رہتا ہے۔ لوگ پانی کے لیے سراپا احتجاج رہتے ہیں۔ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ حکومت کو اس مسئلے کے حل کے ضمن میں سنجیدہ اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ اس حوالے سے موثر حکمت عملی ترتیب دے کر اُس کے تحت آگے بڑھا جائے۔

جواب دیں

Back to top button