Column

کوئٹہ کا لوکل ٹرانسپورٹ

کوئٹہ کا لوکل ٹرانسپورٹ
تحریر : علیشبا بگٹی

پلس پوائنٹ

جب بھی کسی شہر کی ترقی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ تو بلند و بالا عمارات، کشادہ سڑکیں، صاف ستھرے راستے، روشنیوں سے جگمگاتے بازار ہمارے ذہن کے پردے پر ابھرتے ہیں۔ مگر جو چیز ان تمام مناظر کو زندہ رکھتی ہے، وہ ہے ’’ لوکل ٹرانسپورٹ‘‘ یعنی عوامی سفری نظام، جو کسی بھی شہری زندگی کی رگوں میں دوڑنے والا خون ہے۔
23 اگست 2025ء کے اخبار میں کوئٹہ میں لوکل بسوں کے بارے میں دو بیانات پڑھ رہی تھی۔ جس میں پہلا بیان، لوکل بس یونین کے چیئرمین لالا حنیف شاہوانی کا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ انتظامیہ نے کوئٹہ میں لوکل سطح پر چلنے والے بسوں کو روک کر اور ان پر منصوبے کے تحت کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ جو کسی صورت قبول نہیں۔ یہ برسوں سے کوئٹہ کی 30لاکھ کی آبادی کے لوکل ہیں جو سنتی سفر کا آسان ذریعہ ہیں۔ جن سے عوام روزانہ کی بنیاد پر سفر کرتے ہیں۔ عام سرکاری ملازم، طالب علم، مزدور، خواتین، بوڑھے، بچے سب سفر کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں سے بازار جانے والے بسوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی ہیں۔ طویل انتظار کے بعد چھوٹی بسوں میں سواریوں کے بھیڑ لگ جاتے ہیں۔ جس سے مریض بوڑھے افراد ذلت اور تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ جبکہ خواتین بھی اسی صورت حال سے دو چار ہیں۔
دوسرا بیان سیکرٹری ٹرانسپورٹ محمد حیات کاکڑ کا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کوئٹہ اور تربت کے شہریوں کو سفر کی جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے جدید بسیں سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہیں۔ وزیر اعلیٰ سرفراز بُگٹی کی خصوصی ہدایت پر 21نئی بسیں خرید لی گئی ہیں۔ جن میں سے 17کوئٹہ اور 4تربت کے عوام کے لیے مختص ہیں۔ کوئٹہ میں خواتین کے لیے 5پنک بسیں صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہیں۔ جس میں صرف خواتین سفر کر سکیں گی۔ ان کی انسپکشن اور شپمنٹ مکمل ہو چکی ہے۔ ان کا جلد آغاز متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے سے شہریوں کو آرام دہ، محفوظ اور باوقار سفر کی سہولت میسر ہوگی۔ منصوبے کے تحت روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ صوبائی سیکرٹری نے مزید کہا کہ ان بسوں کے شامل ہونے سے روزانہ 40تا 50ہزار مسافر سفر کریں گے۔ حکومت بلوچستان کا مقصد شہریوں کو جدید اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کرتا ہے۔
میں سب سے پہلے وزیر اعلی صاحب سے گزارش کرونگی۔ کہ آپ کے دو کام بہت اچھے ہیں۔ ایک کویٹہ کے سڑکوں کو کشادہ کرنا اور ان کی تعمیر و مرمت، دوسرا گرین بس کا افتتاح ، مگر آپ سے یہ سخت گلہ ہے۔ کہ آپ کو گرین بس سروس کم سے کم سریاب کسٹم سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ جو ابھی تک نہیں کیا۔ لہٰذا سریاب کو بھی اپنا اور کوئٹہ ہی کا حصہ سمجھتے ہوئے گرین بس اور پنک بس کا سروس سریاب کسٹم سے سٹارٹ کریں۔ تاکہ یہاں کے طالبات کو بھی یہ سروس و سہولت میسر آسکے۔
کوئٹہ کی سڑکیں گرد و غبار، کوڑا کرکٹ اور کچرا سے نہیں، بلکہ ایک نئی بحث کے دھوئیں سے بھی اٹی ہوئی ہیں۔ ایک طرف صوبائی حکومت ہے جو شہریوں کو جدید ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا علم بلند کیے ہوئے ہے، تو دوسری طرف وہ روایتی لوکل بسیں ہیں، جن کی کھڑکھڑاتی آوازیں برسوں سے کوئٹہ کے شہریوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ رہی ہیں۔
لوکل بس یونین کے چیئرمین لالا حنیف شاہوانی کی آواز میں صرف احتجاج نہیں، بلکہ ایک پوری کلاس کی بے بسی سنائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق، کوئٹہ کی تیس لاکھ آبادی کے لیے یہی لوکل بسیں ایک عرصے سے ’’ سستی سفری سہولت‘‘ مہیا کر رہی ہیں۔ سرکاری ملازمین، محنت کش، طلبہ، خواتین، بزرگ حتیٰ کہ بچے، یہ سب انہی پر انحصار کرتے ہیں۔ مگر اب ان روایتی بسوں کو سڑکوں سے ہٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جنہیں یونین ’’ کڑی شرائط‘‘ اور ’’ منصوبہ بند دبائو‘‘ کا نام دے رہی ہے۔
دوسری جانب، حکومت کا موقف بھی اپنی جگہ وزنی ہے۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ کے مطابق، کوئٹہ اور تربت میں 21جدید بسیں سروس کے لیے تیار کھڑی ہیں، جن میں سے 5’’ پنک بسیں‘‘ صرف خواتین کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ ایک ایسا اقدام جس سے یقیناً خواتین مسافروں کو تحفظ اور سہولت میسر آئے گی۔ بشرط کہ گرین اور پنک بسوں کو سریاب کسٹم سے سٹارٹ کیا جائے۔ تاکہ سریاب کسٹم سے بلیلی چیک پوست تک شہری بالخصوص بزرگ بچے اور خواتین سرفراز بُگٹی کی حکومت کی مہربانی اور وزن سے ایک آرام دہ اور باوقار سفر کر سکیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ ’’ جدت‘‘ واقعی سہولت ہے یا ایک مخصوص طبقے کے لیے سزا ؟ کیوں کہ ابھی جو صورت حال ہے، اس میں لوکل بسوں کی تعداد میں واضح کمی سے بازار جانے والے مسافر، خاص طور پر خواتین اور بزرگ، بدترین مشکلات کا شکار ہیں۔ بسوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث دھکم پیل، طویل انتظار اور عزتِ نفس کی تذلیل روز کا معمول بن چکا ہی۔
کیا ہم نئی بسیں متعارف کر کے پرانی بسوں کو یوں ہی سائیڈ پر لگا سکتے ہیں؟ کیا حکومت اور یونین کے درمیان ایسا کوئی درمیانی راستہ ممکن نہیں، جہاں جدید سہولتیں بھی ہوں اور روایتی نظام کی افادیت بھی باقی رہے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نئی بسوں کے آنے سے پہلے، پرانی سروس کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی یا کم از کم عبوری نظام بنایا جاتا تاکہ شہریوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
حکومت کا فرض صرف نئے منصوبے متعارف کروانا نہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ ان کے نفاذ کے دوران عوام کو مشکلات سے بچائے۔ اور یونین کی ذمہ داری صرف احتجاج نہیں، بلکہ مثبت مکالمہ بھی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ یہ ’’ بسوں کی جنگ‘‘ ختم ہو، اور شہریوں کو ان کا حق دیا جائے، محفوظ، باعزت اور آسان سفر۔
بدقسمتی سے حکمران بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں ابھی تک وہ بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کر سکے۔ جو لوکل سفر کے لیے ضروری ہیں۔ کوئٹہ جیسے شہر میں بسیں کم، روٹس محدود، اور نظام ناقص ہے۔ جب حکومت نئی بسیں متعارف کراتی ہے، تو ساتھ ہی پرانی بسوں کو بند کر دیا جاتا ہے، جس سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی عبوری نظام ہوتا ہے، نہ عوامی رائے لی جاتی ہے۔
براعظم ایشیا اور دُنیا کے کئی ممالک نے لوکل سفر کے نظام کو محض ’’ سفر‘‘ کی سہولت نہیں بلکہ معیشت، ماحولیات اور شہری زندگی کی بہتری کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
آج جب ہم کوئٹہ میں عوامی سفری مسائل، ناکافی بسیں، مہنگے رکشے یا بے ہنگم ٹریفک سے نبرد آزما ہیں، تب یہ دیکھنا اور سمجھنا نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ کہ ہمارے آس پاس، ہمارے جیسے ہی خطے میں، دوسرے ممالک نے اس مسئلے کا حل کیسے نکالا ہے ؟ اگر لوکل سفر کی بہترین مثال دینی ہو تو۔۔۔
جاپان سب سے نمایاں ملک ہے۔ ٹوکیو میٹرو دنیا کی مصروف ترین سب وے سسٹمز میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں ٹرینیں نہ صرف منٹوں بلکہ سیکنڈوں کی پابند ہیں۔ ہر مسافر کے لیے صاف، محفوظ اور وقت پر پہنچنے والی سفری سہولتیں میسر ہیں۔
جاپان میں ہر چھوٹے بڑے شہر کو ایک منظم لوکل ٹرانسپورٹ سے جوڑ دیا گیا ہے، جس سے شہری زندگی میں سہولت، معیشت میں بہتری، اور ماحول میں بہتری آ رہی ہے۔ جاپان میں، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے تحت چلنے والی بلیٹن ٹرینز وقت کی مثال بن چکی ہیں، وہاں دیہی علاقوں میں اب بھی چھوٹی لوکل بسیں چلتی ہیں تاکہ ہر طبقے کو یکساں سہولت میسر رہے۔
چین نے اپنی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ لوکل سفر کو بھی انقلابی انداز میں اپنایا ہے۔ بیجنگ، شنگھائی اور شینزین جیسے شہروں میں سب وے سسٹم، بسیں اور برقی سائیکلیں ہر طبقے کو سہولت دیتی ہیں۔ کم آمدنی والے افراد کے لیے سبسڈی، خواتین کے لیے مخصوص کوچز، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے الیکٹرک بسیں ، یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ چین نے ٹرانسپورٹ کو صرف رفتار نہیں، فلاح کے ساتھ جوڑا ہے۔
بھارت بھی لوکل ٹرانسپورٹ کے میدان میں کئی سال آگے نکل چکا ہے۔ ممبئی کی لوکل ٹرینیں ہر روز لاکھوں افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔ دہلی میٹرو آج جنوبی ایشیا کا ایک ماڈل نظام بن چکی ہے. جہاں خواتین، معذور افراد اور بزرگوں کے لیے الگ انتظامات کیے گئے ہیں۔ بھارت میں ریاستی حکومتیں ٹرانسپورٹ پر سبسڈی دیتی ہیں، اور پرائیویٹ و سرکاری بسیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ یہی ماڈل پاکستان میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
ترکی کی بات کریں، تو استنبول کا میٹرو اور ٹرام سسٹم جدیدیت اور ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔ وہاں ہر علاقے کو لوکل ٹرانسپورٹ سے جوڑ کر شہریوں کو سفر کے آسان، سستے اور تیز رفتار ذرائع مہیا کیے گئے ہیں۔
ایشیائی ممالک میں ٹرانسپورٹ منصوبے عوامی مشاورت اور زمینی حقائق کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ پرانی سروس کو ختم کیے بغیر نئی سہولت متعارف کروائی جاتی ہے۔ کم آمدنی والے شہریوں کے لیے کرایوں میں سہولت یعنی سبسڈی دی جاتی ہے۔ خواتین، بزرگوں اور معذور افراد کے لیے الگ اور باعزت سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ سب کے عزتِ نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ایشیا ہمیں سکھاتا ہے کہ لوکل سفر صرف سڑک پر چلنے والی بس یا پٹری پر دوڑتی ٹرین نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جو عوام کی زندگی، روزگار، تعلیم، صحت اور عزت سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ایشیائی ممالک کے ماڈلز کو اپنائیں، تو کوئٹہ سے کراچی تک ہر شہر میں ایک نئی امید، ایک نئی روانی اور ایک نئی سہولت جنم لے سکتی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم سفر کو آسان بنائیں، تاکہ عوام کی زندگی آسان ہو۔
نیویارک کی سب وے، لندن کی انڈر گرائونڈ، ٹوکیو کی بلیٹن ٹرینز، پیرس کی میٹرو، یہ سب نظام، صرف رفتار، وقت کی پابندی اور آرام دہ سفری تجربے کی علامت نہیں بلکہ وہاں کے شہریوں کی روزمرہ زندگی کی ضرورت بن چکے ہیں۔
اسی طرح جرمنی، سویڈن اور نیدرلینڈز جیسے ممالک میں، کم آمدنی والے طبقات کے لیے سبسڈی دی جاتی ہے، تاکہ کوئی بھی شخص صرف کرایہ مہنگا ہونے کی وجہ سے تعلیم، صحت یا روزگار سے محروم نہ ہو۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوکل سفر صرف ایک سہولت نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، خاص طور پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں، جہاں معاشی ناہمواری، بے روزگاری اور کم آمدنی والے طبقات کی تعداد زیادہ ہے، وہاں لوکل بسیں کسی عیاشی کا نام نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت اور مجبوری ہیں۔ یہ بسیں ہر روز لاکھوں افراد کو ان کے روزگار، تعلیم، علاج اور دیگر اہم کاموں تک پہنچاتی ہیں۔ خود لوکل ٹرانسپورٹ سے کئی لوگوں اور گھرانوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئٹہ جیسے شہروں میں لوکل بس سروس متاثر ہوتی ہے، تو پورا شہر متاثر ہوتا ہے۔ طالب علم اسکول سے رہ جاتے ہیں، مزدور کام پر نہیں پہنچ پاتے، مریض اسپتال پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں اور خواتین کو گھروں میں محصور ہونا پڑتا ہے۔ کیا یہ صرف ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے؟ نہیں، یہ انسانی زندگی، معاشی ترقی اور سماجی استحکام کا مسئلہ ہے۔
دنیا میںکامیاب ٹرانسپورٹ پالیسی وہی سمجھی جاتی ہے جو سہولت اور ترقی کے درمیان توازن قائم رکھے۔ حکومت کو چاہیے کہ لوکل بس سروس کو جدید سہولتوں کے ساتھ برقرار رکھے، نہ کہ اس کا خاتمہ کرے۔ نئی بسوں کی آمد خوش آئند ہے، مگر اس کا مطلب پرانی بسوں کا خاتمہ نہیں، بلکہ بہتری ہونی چاہیے۔ یونینز اور ٹرانسپورٹ انتظامیہ کو مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر، عوام کی شرکت کے بغیر کوئی پالیسی پائیدار نہیں ہو سکتی۔
لوکل سفر صرف فاصلہ طے کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ عوام کو زندگی کی دوڑ میں شامل رکھنی کا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر میں جب حکومتیں عوام کو سہولت دیتی ہیں، تو وہ صرف سڑکیں نہیں بلکہ قوم کی بنیادیں مضبوط کرتی ہیں۔ یہاں تو گرین بس کے سٹاپ کچرے سے بھرے ہوتے ہیں اور خود گرین بس لوگوں سے کچا کچ بھرا ہوتا ہے۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم صرف ’’ بسیں چلانا‘‘ چاہتے ہیں یا ’’ زندگیاں آسان بنانا‘‘ ، لوگوں کے عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے انہیں باوقار ، آرام دہ ، سستی سفری سہولت دینا چاہتے ہیں ؟ ۔

علیشبا بگٹی

جواب دیں

Back to top button