Aqeel Anjam AwanColumn

ہماری حیثیت وقت کی لکیر پر ایک نقطے سے زیادہ کچھ نہیں

ہماری حیثیت وقت کی لکیر پر ایک نقطے سے زیادہ کچھ نہیں!
تحریر : عقیل انجم اعوان

دنیا میں اوسط عمر 2024ء میں 72.7برس تھی جبکہ پاکستان میں یہ اوسط 67.65برس رہی۔ فرض کریں کہ ہمارے پاس 70 سال جینے کے لیے ہیں۔ یہ 70سال بنتے ہیں 3650ہفتے، 25550دن، 613200گھنٹے، 3کروڑ 68لاکھ منٹ اور 2207.5 ملین سیکنڈ۔ بس اتنا ہی وقت ہے جو ہمیں نصیب ہوتا ہے اگر نصیب ساتھ دے۔ اس سے زیادہ عمر ملی تو یہ بونس ہے کم رہی تو بدقسمتی۔ آئیے! اس سفر کو مزید قریب سے دیکھتے ہیں۔ اوسطاً انسان اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ نیند میں گزارتا ہے۔ یعنی 1217ہفتے صرف بستر پر بیت جاتے ہیں۔ قریباً 400ہفتے تعلیم حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی کی تیاری میں صرف ہو جاتے ہیں۔ مزید قریباً 200ہفتے دیگر معمولات میں گزر جاتے ہیں۔ یوں جان لڑانے کے بعد ہمیں 3650میں سے 1817نکال دیں تو صرف 1833ہفتے بچتے ہیں زندگی جینے کے لیے۔ اور اگر عمر کے آخری 10 سال یعنی 60کے بعد کے سال نکال دیں تو ہمارے پاس محض 1300ہفتے بچتے ہیں جو سب سے قیمتی اور خوشگوار وقت ہوتا ہے۔
یہ حقائق پڑھنے کے بعد دو تلخ سچائیاں سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ گھڑی کی سوئیاں رکی نہیں رہتیں۔ ٹک ٹاک، ٹک ٹاک، وقت بہتا رہتا ہے، چاہے ہم کون ہیں، کہاں ہیں یا کیا کر رہے ہیں۔ کائنات اپنے معمولات کے ساتھ رواں دواں ہے۔ خلا پھیل رہی ہے۔ ہماری زمین کہکشاں میں 600کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ تو ہم اپنے بارے میں جو بھی سمجھتے ہیں یہ سب محض ایک خود ساختہ وہم ہے لیکن یہ ایک اور فلسفیانہ زاویہ ہے جس پر الگ سے بات کی جا سکتی ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جو 1300ہفتے ہمیں جینے کے لیے ملتے ہیں ہم ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ عام طور پر ہم میں سے اکثر لوگ اس قیمتی وقت کو مستقبل کی فکریں کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ماضی گزر گیا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں۔ ہمارے پاس جو ہے وہ یہ لمحہ ہے۔ مگر ہم اسے اس بات میں گنوا دیتے ہیں کہ کیا ہو گیا یا کیا ہونے والا ہے۔ منفی سوچ، مایوسی اور عدم تحفظ ہمارے ذہنوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہم لمحہ حال کی لذت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جو لوگ کامیاب ہیں وہ بھی اکثر اس وقت کو اپنی بڑائی اور تکبر میں ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کائنات کے مالک ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب بس 1300ہفتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا وجود مٹ جائے گا۔ کچھ دہائیوں بعد ان کے ہونے کا کوئی نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ زندگی کو اس سے غرض نہیں کہ آپ بادشاہ تھے یا فقیر، قبر سب کے لیے برابر ہے۔ جسم ایک ہی وقت میں گلتا سڑتا ہے، فنا اپنے اصولوں پر عمل کرتی ہے اور اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کون تھے۔ مگر کامیاب لوگ زندگی ایسے جیتے ہیں گویا یہ کبھی ختم نہیں ہوگی اور اپنے غرور میں جینے کا اصل مزہ کھو دیتے ہیں۔پھر وہ لوگ ہیں جو کامیاب نہیں ہوتے ان کی زندگی کڑھنے اور رونے میں گزرتی ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ سائنس کے مطابق دنیا میں پیدا ہونے کے امکانات 400 ٹریلین میں ایک ہیں۔ جی ہاں چار سو کھرب میں ایک۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود پانا ہی ایک انمول تحفہ ہے۔ زندگی سے پہلے یا بعد کیا ہے یہ الگ بحث ہے مگر ایک بات طے ہے کہ صرف یہاں موجود ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے لاٹری جیت لی ہے تو پھر کیوں روئیں؟ کیوں نہ شکر کریں؟ ذرا کینسر کے وارڈ میں جائیں وہاں کے مناظر دیکھ کر آپ سجدے میں گر جائیں گے کہ اللہ نے آپ کو ایسی اذیت سے بچا رکھا ہی۔ شک نہیں کہ زندگی سخت ہو سکتی ہے مگر جب تک دل کی دھڑکن کی موسیقی بج رہی ہے کیوں نہ جیا جائے؟ منفی سوچ کچھ نہیں بدلتی، مثبت رویہ ضرور بدل سکتا ہے۔ کیا کریں؟ نسخہ بہت آسان مگر عمل میں مشکل ہے۔
سب سے پہلا قدم یہ ماننا ہے کہ وقت محدود ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ یہ وقت گزر رہا ہے، چاہے آپ کچھ بھی کریں یہ سمجھنا آسان نہیں مگر اگر آپ سمجھ جائیں تو سکون آپ سے زیادہ دور نہیں۔ دوسرا، اپنی انا کو دفن کریں۔ آپ اس کائنات کی وقت کی لکیر پر ایک نقطے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کبھی خود کو دوسروں سے بڑا نہ سمجھیں۔ ایک لمحہ ہی کافی ہے کہ وجود کی عمارت زمین بوس ہو جائے۔ سب عارضی ہے خوابوں کو پانے کے لیے محنت کریں مگر دوسروں کو نقصان پہنچا کر نہیں۔ نہیں جناب، یہ قبول نہیں۔ تیسرا، لمحے کو جئیں، آنکھیں بند کریں اردگرد کی آوازوں کو سنیں، ہوا کو محسوس کریں، پھول کی خوشبو سونگھیں، تتلی کو چھوئیں، گلاب جامن کا ذائقہ لیں۔ یہ سب روح کی گہرائی سے کیجیے یقین جانیے دنیا بدلتی محسوس ہوگی۔ چوتھا، شکر ادا کریں۔ زندگی آپ پر جو بھی آزمائش ڈالے شکر گزار رہیں۔ ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو آپ سے بدتر حال میں ہوں گے، ہر لمحہ ایک تحفہ ہے اسے ضائع نہ کریں اس کا مزہ لیں یہ لمحہ واپس نہیں آئے گا اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یادیں بھی وقت کے ساتھ مٹ جاتی ہیں اور خلا چھوڑ جاتی ہیں اس لیے لمحے کو جی لیں۔
آخر میں یاد رکھیں سب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ وقت گزرتا ہے ہر برا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ یہ نعمت ہے اس لیے کبھی امید نہ چھوڑیں۔ اپنی بہترین کوشش کریں اور باقی اس کے سپرد کریں جس نے یہ زندگی عطا کی۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے بہتر بنیں۔ چھوٹے پن، حسد، تکبر یا جلن میں زندگی ضائع نہ کریں۔ ہر کسی کو اس کی زندگی کی ٹوکری ملی ہے کوئی نہیں جانتا دوسرا کیا جھیل رہا ہے۔ سبق یہ ہے کہ زندگی کو بھرپور جیو، اسی لمحے میں جیو۔ یہ ایک طرف بہنے والا دھارا ہے۔ جو گزر گیا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا مگر اچھا ہونا ہمیشہ مزید اچھائی لاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button