Column

علم عمل اور اخلاص

علم عمل اور اخلاص

شہر خواب ۔۔۔
تحریر: صفدر علی حیدری

استاد نے مجھ سے پوچھا
علم کے کتنے درجے ہوتے ہیں ؟
میں نے عرض کی حضرت ، علم کے تین درجات ہوتے ہیں ۔
علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین۔
وہ فرمانے لگے
یہ علم کے درجات نہیں بلکہ کیفیات ہیں ۔
پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمانے لگے
جان لو ، علم کے سات درجات ہوتے ہیں ۔ پہلا درجہ لاعلمی یا جہالت ہے جسے ہم زندگی سے پہلے کی کیفیت یعنی موت سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ یہ علم کا پہلا زینہ ہے ۔ یہ جانے بنا کہ میں نہیں جانتا ، کوئی جاننے کا عمل شروع ہی نہیں کر سکتا ۔
سن لو ، دوسرا درجہ علم کی ابتدا کا ہے ۔ یہ علم کا تعارف ہے۔ یہ علم کی زندگی کا آغاز ہے۔ اس کو ہم مچھلی کی سطح کے علم سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو کائنات میں صرف مقید پانی کا علم رکھتی ہے اور زمین و آسمان سے ناواقف ہوتی ہے ۔
تعارف حاصل کرنے کے بعد تیسرا درجہ ان باتوں کو جاننا ہے جو فائدہ پہنچاتی ہیں اور جن میں دلچسپی ہوتی ہے ۔ یہ جانوروں کی سطح کا علم ہے جو نہ صرف پانی بلکہ اس سے اوپر کی دنیا یعنی زمین کا بھی علم رکھتے ہیں ۔
چوتھا درجہ ان باتوں کو جاننا ہے جو نقصان پہنچاتی ہیں اور جن سے بچنا لازمی ہوتا ہے ۔ یہ پرندوں کی سطح کا علم ہے جو نہ صرف زیر زمین پانی اور زمین کا علم رکھتے ہیں بلکہ آسمان کی بلندیوں تک بھی ایک حد تک پرواز کرتے ہیں ۔
پانچواں درجہ نفع و نقصان سے ماورا باتوں کو بھی جاننا ہے۔ یہ انسان کا درجہ ہے جو بیک وقت زمین کی تہہ ، زمین کی سطح ، آسمانوں وسعتوں کا علم جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
چھٹا درجہ مادی کائنات کی ڈائمنشنز سے نکل کر اس دنیا کا علم بھی حاصل کرنا ہے جو حواس سے ماورا ہے ۔ یہ فرشتوں کا درجہ ہے۔
ساتواں اور آخری درجہ اس منبع کا علم ہے جہاں سے یہ تمام علم نکلتا ہے جو اس منبع کا علم حاصل کر لیتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اسے کچھ علم ہی نہیں۔ یہ تمام علم کی موت ہے ۔ گویا جس موت سے علم کی ابتدا ہوئی تھی اسی موت پر علم کا اختتام ہو گیا۔ لیکن یہ جاننا کہ میں کچھ نہیں جانتا اب جہالت نہیں بلکہ علم کی معراج ہے۔
اچانک حضرت نے ایک اور سوال پوچھ لیا۔
کوئی شخص علم کے ایک درجے سے اگلے درجے میں کس طرح منتقل ہوتا ہے؟
جب وہ ایک مرحلہ مکمل کر لیتا ہے تو اگلے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے، میں نے جواب دیا ۔
بالکل درست ، بس اس میں ایک بات کا اضافہ اور کر لو ۔ وہ یہ کہ ایک شخص مختلف فیلڈز میں بیک وقت مختلف درجوں میں ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر اپنی فیلڈ میں تو علم کے ساتویں درجے میں ہو لیکن عین ممکن ہے وہ اکنامکس کے بارے میں ابھی دوسرے درجے میں ہو، حضرت نے جواب دیا۔
میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں
آپ نے علم کو پرندوں جانوروں انسانوں اور فرشتوں کے علم سے کیوں تشبیہ دی ہی جبکہ جانور بھی تو نفع کے ساتھ ساتھ نقصان والی باتوں کا علم رکھتے ہیں؟۔
دراصل جانوروں اور مچھلی یا پرندوں کے علم کا مطلب یہ نہیں کہ یہ علم جانوروں کا ہے یا پرندوں کا ہے یا مچھلی کا ہے۔ بلکہ یہ علم کی سیڑھیاں سمجھانے کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ سب سے پہلی سیڑھی زیر زمین پانی کی دنیا ہے جس کو مچھلی کی سطح کے علم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد زمین کی سطح کا علم ہے جو چوپایوں کی دنیا ہے۔ اس سے اوپر آسمانی فضا کی سطح ہے جو پرندوں کی دنیا ہے۔ اس سے اوپر ان تمام سطحوں کی تین ڈائمنشنز کا علم ہے جو انسان کی دنیا ہے۔ اس کے بعد روحانی ڈائمنشنز ہیں جو فرشتوں کی دنیا ہے اور اس کے بعد علم کا منبع ہے جو حقیقی صاحب علم کی دنیا ہے۔
کیا ایک انسان فرشتوں کا علم حاصل کر سکتا ہے؟
اسے یوں کہنا چاہیے کہ کیا ایک انسان فرشتوں کی دنیا کا علم حاصل کر سکتا ہے؟ تو جواب اثبات میں ہے۔ لیکن وہ یہ علم اتنا ہی حاصل کرسکتا ہے جتنی اجازت ہوتی ہے۔ اس کی مثال پیغمبروں کا فرشتوں کے ساتھ مکالمہ ہے۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلا م نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تعلیم دی یا معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملٹی ڈائمنشن دنیا دکھائی گئی۔
اب بات میری سمجھ آچکی تھی اور میں اس سوچ میں غلطاں تھا کہ میں خود علم کی کس سطح پر ہوں ۔
کسی صاحب علم کا اپنے استاد کے ساتھ یہ مکالمہ علم کے حوالے سے خاصا دلچسپ لگا سو آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ۔
بزرگوں نے علم کے پانچ آداب بتائے ہیں
1۔ خاموشی
2۔ توجہ سے سننا
3۔ جو سنا اسے یاد رکھنا
4۔ جو سیکھا اس پر عمل کرنا
5۔ جو علم حاصل ہوا اسے دوسروں تک پہنچانا
کہیں پڑھا تھا کہ علم کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے سب پتہ ہے ۔ پھر کسی ’’ مولوی ‘‘کو کوئی ’’ شمس تبریز ‘‘ مل جاتا ہے اور مولوی ہاتھ باندھ کے کہتا ہے
میں یہ جانتا ہوں کہ کچھ نہیں جانتا
ارسطو سے شاگردوں نے پوچھا تھا کہ آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہے تو اس کا جواب تھا
تم نہیں جانتے کہ کچھ نہیں جانتے جب کہ مجھے پتہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا
بھئی سچی بات یہی ہے کہ
’’ عالم ‘‘ کہلوانا صرف ذات احدیت کو زیبا ہے کہ جس کا علم ذاتی ہے
کسبی یا عطائی نہیں۔ اور اس کی ہر صفت صرف اور صرف قدیم ہے۔
وہ علم سے عالم ہے اور اس کا علم ابدی ازلی ہے۔
مولا علیؓ کا ارشاد قابل غور تو ہے مگر محتاج تشریح نہیں
’’ دو لوگوں نے میری کمر توڑ دی ہے
ایک بے عمل عالم
دوسرا بے علم مجاہد ‘‘
ایک بات عرض کرنا ضروری ہے اور وہ اس قدر اہم ہے کہ اس کالم کی لکھت کا باعث بنی ہے
علم راستہ ہے، ایک پڑائو ہے، ایک ذریعہ ہے ، ایک واسطہ ، منزل نہیں ہے۔
اقبالؒ نے جیسے عقل کو راستے کا چراغ قرار دیا ہے
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
یقیناً علم بھی ایک چراغ ہے، ایک نور ہے۔ خدا جس کے دل میں چاہتا انڈیل دیتا ہے۔
انسان کو یہاں پر رکنا نہیں چاہیے کہ یہ پہلی منزل ہے ، مقدمہ ہے ۔ یہ وضو کی طرح ابتدائیہ ہے۔ اب ٹھہر گئے اور مصلے تک نہ پہنچے تو اس کا کیا فائدہ ۔
اسی لیے تو عارف پکار کے کہتے ہیں
علموں بس کریں او یار
انسان علم کے نور سے خود کو اور پھر خدا کو پہچانتا ہے۔ جب اسے اکبر مان لیتا ہے تو پھر اس کے پاس سرنڈر کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ اب دوسری منزل کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ عمل کی پر خار وادی ہے جس میں سالک کو گزرنا پڑتا ہے۔
اب اقبالؒ کے الفاظ میں
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے، منزل نہیں ہے
اب اس راستے پر صبر سے چلنا ضروری ہے۔ استقامت کے ساتھ، اخلاص کے ساتھ کہ مقصد کثرت عمل نہیں حسن عمل ہے
اور کہیں وہ بھٹک نہ جائے تو دعا بھی ضروری ہے اور اس کے لیے نماز کی ادائیگی لازمی۔
کیوں کہ کتاب کہتی ہے
’’ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ‘‘۔
قیام میں وہ دعا کرتا ہے
مجھے سیدھے رستے چلا
( میری سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا رہ )
کہا جاتا ہے کہ علم کے سمندر کے مقابلے میں عمل کا ایک قطرہ افضل اور عمل کے ایک سمندر اخلاص کا ایک قطرہ افضل ۔
اب ایک افسانچہ بھی پڑھ لیجئے
۔۔۔
راستہ
افسانچہ
صفدر علی حیدری
۔۔۔۔
میں نے اسے دیکھا وہ سر پٹ دوڑ رہا تھا ، ایسے جسے اسے اپنی منزل پر پہنچنے کی بہت جلدی ہو۔ میرے ساتھ ایک دوست بیٹھا تھا اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔
’’ یار یہ اس آدمی کو دیکھو یہ انتھک اور جان توڑ محنت کر رہا ہے۔ مجھے لگتا ہی کہ اس بار دوڑ یہی جیتے گا ‘‘
میرے دوست کے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
’’ کیا تمہیں اس بات کا یقین نہیں ہے ؟‘‘
میرے لہجے میں حیرت در آئی
’’ نہیں بالکل بھی نہیں‘‘۔
’’ وہ کیوں ؟‘‘
’’ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس بار بھی جیت نہیں پائے ‘‘۔
’’ یار اتنی تو محنت کر رہا ہے وہ ۔ دیکھو تو سب سے آگے نکل گیا ہے۔ دور دور تک کوئی اس کے ساتھ کوئی نہیں ‘‘۔
’’ یہ اور بات ہے ، لیکن یہ پھر بھی جیت نہیں پائے گا‘‘
اس کے لہجے میں یقین تھا
’’ مگر وہ کیسے ، بتائو گے ؟‘‘
تم یہ بتائو جیت کے لیے منزل اہم ہوتی ہے یا راستہ ۔۔۔؟
’’ ظاہر ہے منزل ، اسی کے لیے تو انسان اتنی محنت کرتا ہے ‘‘۔
’’ نہیں راستہ ۔۔۔
اور یہ جس راستے پر دوڑ رہا ہے وہ راستہ اس کی منزل کی طرف جاتا ہی نہیں ہے‘‘
اب ایک حسب حال شعر پیش خدمت ہے :
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں ؟
بے مراد ہیں پائوں گرد راہ سے اٹ کر بھی

صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button