Column

نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت

نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت!
تحریر : امجد آفتاب

مستقل عنوان: عام آدمی

8 لاکھ 81 ہزار 913 مربع کلو میٹر رقبے پر محیط پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے ۔ تقریبا 25کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس ملک کی انتظامی تقسیم صرف چار صوبوں تک محیط ہے۔ جب ہم پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک سے کرتے ہیں تو یہ سوال ذہنوں میں شدت سے ابھرتا ہے کہ کیا پاکستان میں موجودہ صورتحال میں مزید صوبوں کی ضرورت ہے ؟ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پاکستان کی صوبائی تقسیم پر بات ہو رہی ہے کیونکہ سیاسی، لسانی اور انتظامی تقسیم کا یہ موضوع تقسیم پاکستان کے بعد سے مسلسل بحث کا مرکز رہا۔
حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کیا گیا جس میں فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژن کو ملا کر مغربی پنجاب کے نام سے ایک نیا صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی۔ اس سے پہلے بھی کئی سیاستدان ملک کو 12اور اس سے زائد صوبوں میں ملک کو تقسیم کرنے کی حمایت کرتے آ رہے ہیں ۔
قیام پاکستان کے وقت ملک کے مغربی حصے کی آبادی 3کروڑ 20لاکھ کے قریب تھی جو کہ 78برس میں 8گنا کے قریب بڑھ چکی ہے، لیکن اس بدلتی صورتحال کے باوجود انتظامی صورتحال کو تبدیل نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں وسائل اور مسائل میں خوفناک درجے کا عدم توازن پیدا ہوتا ہے ۔
دنیا بھر میں وقت کے ساتھ انتظامی معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کیلئے نئے صوبے بنتے رہے ہیں جیسا کہ امریکہ جو کبھی 13ریاستوں پر مشتمل تھا، آج یہ تعداد پچاس ریاستوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے ہمسایہ ملک بھارت کے 1947ء میں نو صوبے تھے، جو اب بڑھ کر 28ہو چکے ہیں۔ پاکستان سے چھ گنا چھوٹا ملک نیپال کا رقبہ ایک لاکھ 47ہزار مربع کلو میٹر ہے، لیکن اس کے سات صوبے ہیں۔41ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا سوئزر لینڈ 26پر مشتمل ہے ۔
اگر پاکستان کے صوبوں کے رقبے اور آبادی کا دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو تو پاکستان کا ہر ایک صوبہ کئی ممالک سے بڑا اور گنجان آباد ہے۔2لاکھ پانچ ہزار مربع کلو میٹر پر محیط پاکستان کا صوبہ پنجاب رقبے کے لحاظ سے یونان، ہنگری اور پرتگال جیسے یورپی ممالک سے بڑا ہے اور اگر پنجاب کی 12کروڑ آبادی کا مقابلہ کیا جائے تو اِس کی آبادی جرمنی، ترکی، مصر ، فرانس اور اٹلی سمیت درجنوں ممالک سے زیادہ ہے۔
6 کروڑ والے آبادی والے صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو ایک لاکھ 40ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ صوبہ رقبے میں یونان، نیپال اور شمالی کوریا جیسے ممالک سے بھی بڑا ہے جبکہ اِس کی آبادی سعودی عرب، ملائشیا اور آسٹریلیا سے بھی زیادہ ہے۔ پہاڑوں اور وادیوں پر مشتمل صوبہ خیبرپختونخوا کا 74ہزار مربع کلو میٹر کا رقبہ سری لنکا ،ہالینڈ،بیلجئم اور سوئزر لینڈ سے زائد ہے اور تقریبا چار کروڑ نفوس والا یہ صوبہ سعودی عرب ،آسٹریلیا، ملائشیا اور نیپال سے زائد آبادی رکھتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے رقبے کی بات کی جائے تو 3لاکھ 47ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر محیط ہے اور یہ رقبہ اتنا وسیع ہے کہ برطانیہ،اٹلی پولینڈ،ناروے اور جاپان جیسے ممالک اس میں سما جائیں۔ اس صوبے کی آبادی محض ایک کروڑ 20لاکھ ہے لیکن جغرافیائی وسعت کے لحاظ سے یہ صوبہ دنیا کے کئی ممالک پر بھاری ہے۔ اب ذرا سوچئے، ایک ایک ایسا ملک جس کے صوبے کئی کئی ممالک سے بڑے ہوں لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ چار صوبوں پر مشتمل ہو، کیا واقعی پاکستان جیسے بڑے ملک کیلئے صرف چار صوبے کافی ہیں ؟ اسی وجہ سے ماہرین پاکستان کیلئے مزید نئے صوبوں پر زور دیتے ہیں ۔
معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ انتظامی ڈھانچہ علاقائی معاشی ترقی کی خلیج کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے، پاکستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ صوبوں میں آبادی کے بے تحاشا فرق کی وجہ سے مسائل ہیں، غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12چھوٹے صوبے قائم کرنے سے ہر صوبے کی آبادی کم ہوکر 2 کروڑ تک ہوجائے گی، 12چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی بجٹ 994ارب روپے تک ہو جائے گا۔ 15سے 20چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی بجٹ 600سے 800ارب روپے تک ہوجائے گا، ہر صوبے کی آبادی ایک کروڑ 20لاکھ سے ایک کروڑ 60لاکھ افراد تک ہوسکتی ہے۔ صوبوں میں آبادی کے بے تحاشا فرق کی وجہ سے مسائل ہیں، غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھتا جا رہا ہے، پنجاب میں غربت کی شرح 30فیصد اور بلوچستان میں 70 فیصد ہے۔تھنک ٹینک کے مطابق خیبرپختونخوا میں غربت 48 فیصد اور سندھ میں 45 فیصد ہے، آبادی کے دباؤ کی وجہ سی صوبوں کو وسائل کی فراہمی بڑا فرق دکھائی دیتا ہے، پنجاب کو 5 ہزار 355 ارب روپے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کو ایک ہزار 28 ارب روپے مل رہے ہیں، صوبوں میں بے تحاشا آبادی کی وجہ سے معاشی مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، چھوٹے صوبوں کے قیام سے بجٹ کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے گا۔ فی الوقت صوبوں میں اوسط غربت کی شرح 40 فیصد ہوچکی ہے، چھوٹے صوبوں کے قیام سے غربت کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہوگی، چھوٹے صوبوں کے قیام سے روزگار کے بہتر مواقع میسر آ سکتے ہیں، وفاقی ڈویژنز کے قیام سے ٹارگٹڈ معاشی اقدامات شروع ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی آمدن میں اضافہ ممکن ہے، چھوٹے صوبوں کے قیام سے زرعی آمدن میں اضافہ ممکن ہے، زرعی اصلاحات سے صوبائی آمدن میں جی ڈی پی کا ایک فیصد اضافہ ہوسکتا ہے، چھوٹے صوبوں کے قیام سے پراپرٹی ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا۔ معاشی تھنک ٹینک کے مطابق پراپرٹی سیکٹر میں اصلاحات سے صوبوں کی آمدن 2فیصد بڑھ سکتی ہے، چھوٹے صوبوں سے شہروں علاقوں میں رئیل اسٹیٹ شعبے میں سٹے بازی کا خاتمہ ہوگا، چھوٹے صوبوں سے وفاق اور صوبوں میں ٹیکس نظام میں ہم آہنگی ہوگی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ انتظامی ڈھانچہ علاقائی معاشی ترقی کی خلیج کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
پاکستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے ہیں، پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، پنجاب کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں شدید قلت کا سامنا ہے، پنجاب میں 10 لاکھ مریضوں کے لیے 3 ہسپتال ہیں۔ سندھ میں 10 لاکھ مریضوں کے لیے 8.5 ہسپتال ہیں۔
پنجاب میں شرح خواندگی 66.3 فیصد ہے، بلوچستان میں شرح خواندگی 40.2 فیصد، سندھ میں 78 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے، چھوٹے صوبوں کے قیام سے ملک میں بہتر طرز حکمرانی قائم کیا جا سکے گا، چھوٹے صوبوں کے قیام سے وسائل کی بہتر تقسیم ممکن ہوسکے گی۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے ہر چھوٹے صوبے میں ایک ٹیچنگ ہسپتال اور یونیورسٹی قائم کی جا سکتی ہے، ہر چھوٹے صوبے میں خصوصی اقتصادی زون کے قیام سے صنعتی ترقی میں اضافہ ممکن ہوگا۔ نئے صوبوں کی صورت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم، گورنس میں بہتری اور عوام کی محرومیوں میں کمی آ سکے گی۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے نئے صوبے قائم کرے کیونکہ یہی ہمارے مسائل کا حل ہے اور یہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ قومی اور عوامی ضرورت بھی ہے۔

جواب دیں

Back to top button