Column

کالم: صورتحال

کالم: صورتحال
سیاسی گلیشئر پھٹنے کو ہے
تحریر:سیدہ عنبرین
پاکستان نے گزشتہ ستر برس میں جو بھی ترقی کی ہے، اس میں ایک پنج سالہ ترقیاتی منصوبے کا بہت ذکر ملتا ہے، اسی منصوبے کے تحت ڈیم بنائے گئے، انڈسٹریل زون بنائے گئے، ٹیکسٹائل کی صنعت کو بہتر کیا گیا، زراعت کو نئے خطوط پر استوار کیا گیا، نئے بیج، نئی کھادیں تیار کی گئیں۔ پھر ایک وقت آیا جب پٹ سن سے تعلق ٹوٹ جانے کے بعد بھی ہم برآمد ات میں اپنے ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور خوراک میں خود کفالت کی منزل حاصل کر گئے۔ پھر درمیان میں ہر صنعت کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا گیا، جس نے معیشت پر کاری ضرب لگائی، قومیائی کی گئی کوئی صنعت ایسی نہ تھی جو منافع میں چلی، ہر طرف خسارہ ہی خسارہ تھا، اس دور کے بعد انفرادی کاروباری شخصیات میدان میں اتریں، بینکوں سے قرضے لوٹے گئے۔ خاندانی کاروبار خوب چمکے ، تنگ گلیوں اور سیلن زدہ چھوٹے مکانوں کے مکین فارم ہائوسز میں منتقل ہو گئے۔ سائیکل سے موٹر سائیکل نہیں براہ راست کاروں میں سوار ہوئے۔ اگلی منزل بلٹ پروف کاروں کی تھی، پھر ان کی کاروں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا اور کاروں کے پیچھے مسلح محافظوں کے دستے نیا فیشن بن گئے۔ اس کلچرل کو خوشحالی کا نام دیا گیا۔ جبکہ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنسنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ وقت آگیا کہ ایک قرضے کی سودی قسط ادا کرنے کے قابل نہ رہے، اس کی ادائیگی کیلئے ایک نیا قرض لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ ہمارا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ بالائے طاق رکھ دیا گیا، اس کے ساتھ ہی اس کے خالق اور اس پر موثر انداز میں عمل درآمد کرنے والے وفاقی وزیر محبوب الحق بھی گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔
آج ایک نئے دس سالہ ترقیاتی منصوبے کی بازگشت ہے، اس کے اندر کیا کیا ہے، تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ چند چیزوں کا ذکر ضرور ہوا ہے، جس کے مطابق سونے کے ذخائر سے آمدنی کے دو اب ڈالر سالانہ، معدنیات کے ذخائر کی مالیت اور اس کی متوقع آمدن کے تخمینے کسی خوشخبری سے کم نہیں، کیا کریں، دل نے اتنے فریب کھائے ہیں، یہ خوشی بھی سراب لگتی ہے۔ دس سالہ ترقیاتی منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آج سے قریباً ساڑھے تین برس قبل دور کر دی گئی تھی اور ترقیاتی کام کا آغاز کر دیا گیا تھا، خاص طور پر اس ترقیاتی منصوبے پر ٹھیک تین برس قبل تیز رفتاری سے کام شروع کر دیا گیا، اب اس کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں۔
ملکی معیشت، امپورٹ ایکسپورٹ، زرمبادلہ کے ذخائر، ڈالر، پٹرول کی قیمت اور اشیائے صرف کی قیمتیں ایسا آئینہ ہیں جس میں مکمل ترقی کی شکل دیکھی جاسکتی ہے، شکل کتنی خوبصورت یا کتنی مکروہ اور بد صورت نظر آتی ہے آئینہ ہمیں ہر روز اس کی خبر دیتا ہے۔
تازہ ترین سرکاری اطلاعات کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ چند روز میں ساڑھے سات کروڑ ڈالر کا اضافہ ہونے کے بعد اب یہ ذخائر ساڑھے انیس ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ یہ بتانے اور یاد رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اس میں سعودی عرب، خلیجی ممالک اور چین نے کتنے ارب ڈالر ہمیں استعمال کرنے کیلئے نہیں صرف سونگھنے کیلئے دے رکھے ہیں۔ ہم ہر روز ان نو ارب ڈالروں کی خوشبو سونگھتے ہیں تو ہمارا تنفس بحال رہتا ہے۔
چند ماہ قبل ہمارے ایک دوست نے اپنے امانتاً رکھے گئے ڈالر واپس کرنے کا کہا تو ہماری نبضیں ڈوبنے لگیں۔ کافی اعلیٰ ترین سطح پر منت ترلہ پروگرام کے بعد ہم اپنے دوست کو منانے میں کامیاب ہوئے کہ ہمیں خون اور گلوکلوز کی اس بوتل کی ابھی اشد ضرورت ہے۔
خوشحالی کی طرف تیز رفتاری سے طے ہونے والے سفر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے جو وزیر خزانہ نے کی ہے۔ ان کے مطابق ملک میں اکتالیس فیصد مہنگائی بڑھی ہے، دوسری طرف ملک کے بیرونی قرضے 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں ماہ اگست کے جاری ہفتے میں ایک جھٹکے میں سرمایہ کاروں کے 150ارب روپے ڈوب گئے۔ سٹاک مارکیٹ کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو ایسے جھٹکے سال میں کم از کم چار مرتبہ ضرور آتے ہیں۔ ہر جھٹکے کے بعد سٹاک مارکیٹ چڑھتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نفسیاتی انڈیکس عبور کر کے فلاں آسماں تک جا پہنچی ہے، یہ سٹاک مارکیٹ کہانی صرف پاکستان میں نظر آتی ہے۔ دنیا کی کسی سٹاک مارکیٹ میں یہ چلن نظر نہیں آتا، جس کے ڈوب جاتے ہیں انہیں غش پڑ جاتا ہے۔ جنہیں ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ نئی آب و تاب کے ساتھ نئے منصوبے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے ٹیرف پندرہ فیصد کی بجائے اب انیس فیصد ہو گیا ہے، اسے بھی ترقی کا زینہ بتایا جارہاہے۔ اور لڈیاں ڈالی جارہی ہیں کہ یہ بنگلہ دیش اور بھارت کی نسبت کم ہے۔ ملین ڈالر سوال تو یہ ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ مہنگی گیس، مہنگی بجلی اوپر سے سر پر غیر استعمال شدہ اور غیر خرید کردہ بجلی کے بل، ٹوٹی کمر سے ہم دشمن کی کیا کمر توڑیں گے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنے لئے کیا جگہ بنا پائیں گے؟۔
گیس کی نئی قیمتوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب کسانوں کو مہنگی کھاد خریدنا پڑی۔ ان پر سات ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا، جبکہ کھاد بنانے والی کمپنیوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ اخباری اطلاع کے مطابق یوریا کھاد کی بوری 873روپے مہنگی ہوئی، ملبہ کسانوں پر ڈالا گیا۔
گورنس کا شاہکار بھی دیکھیں، گلگت بلتستان میں غذر کے علاقے میں گلشیئر پھٹنے کی بروقت اطلاع دیکر 300افراد کی جانیں بچانے والے تین چرواہوں کو وزیراعظم جناب شہباز شریف نے ملاقات کیلئے اسلام آباد بلایا۔ وصیت خان، انصار اور محمد خان کو بروقت اسلام آباد ہی نہ پہنچایا جاسکا۔ وزیر اعظم انہیں خصوصی انعام نے نوازنا چاہتے تھے، وہ نہ پہنچے، ان کے پہنچنے سے پہلے ہی نشان پاکستان، تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز کی لوٹ سیل ختم ہو چکی تھی۔ ترقی کی رفتار دیکھنے کیلئے کراچی اور سندھ میں ڈوبے ہوئے علاقے دیکھئے اور شکر ادا کیجئے، پانی ابھی گردن تک ہے، سانسیں چل رہی ہیں، کب بند ہو جائیں کچھ کہا نہیں جاسکتا، سیاسی گلشیئر پھٹنے کی دیر ہے، بس سانسیں رک جائینگی ۔

جواب دیں

Back to top button