دعا کیجیے۔ مرادیں پائیے

دعا کیجیے۔ مرادیں پائیے
تحریر: رفیع صحرائی
کہتے ہیں کہ قسمت کا لکھا اٹل ہوتا ہے۔ جو مقدر میں ہو وہ مل کر ہی رہتا ہے۔ اگر کوئی چیز مقدر میں نہیں تو انسان لاکھ زور لگا لے اسے وہ چیز نہیں ملے گی۔ پنجابی میں بھی یہ اکھان عام بولا جاتا ہے کہ
’’ لیکھاں اگّے نہیوں تیرا زور چلنا‘‘
کچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ ’’ مقدرات اٹل ہوتے ہیں‘‘۔ اگر اس بات کو اسی طرح مان لیا جائے تو پھر اللّٰہ تعالیٰ سے دعا و فریاد کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ ممکن ہے جو کچھ مقدر میں لکھا جا چکا ہے اس کے بدلنے کی شرط ہی یہی ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر سچے دل سے عاجزی کے ساتھ دعا کی جائے کیونکہ قادرِ مطلق کو اپنے بندوں کی عاجزی بہت پسند ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو پے پناہ دولت سے نوازا تھا۔ دنیا میں موجود کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس نہ ہو۔ حضرت ایوب علیہ السلام اپنے وقت کے کروڑ پتی تھے۔ پھر اللّٰہ پاک نے ان کو آزمایا۔ ان سے سب کچھ چھین لیا۔ ان کی بہت ساری اولاد تھی اور ساری ایک ساتھ فوت ہوگئی۔ وسیع و عریض رقبے پر ان کی فصلیں جل کر راکھ ہوگئیں اور اللّٰہ نے ان کو بے شمار بیماریاں لاحق کر دیں۔
تب ایک دن حضرت ایوب علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ سے رحم مانگا۔
’’ ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے اور تُو تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے‘‘ ( سورۃ الأنبیائ، 83)
اللہ پاک نے ایوب علیہ السلام کی دعا قبول کرلی اور حضرت ایوب علیہ السلام کو صحت یاب کر دیا اور ان کو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ دولت اور شان و شوکت عطا کی۔
’’ ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور جو ان کو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ان کو بال بچے بھی عطا فرمائے‘‘ ( سورہ الانبیائ، 84)
وہ اللّٰہ ہی ہے جس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آتی۔ وہ نوازنے پہ آئے تو بے انت نوازتا ہے اور جب اسے اپنے بندے کا امتحان لینا ہوتا ہے تو سب کچھ واپس لے کر آزماتا ہے۔ سرخرو وہی ہوتے ہیں جو ثابت قدم رہتے ہیں۔ سچ ہی تو ہے کہ
’’ تقدیر کو بدل دیتی ہے دعا‘‘
اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں حضرت زکریا علیہ السلام کی بے بسی کے واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھی۔ وہ بچے پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ حضرت زکریا علیہ السلام بوڑھے ہو گئے، پوری عمر گزر گئی، بیوی بچے پیدا نہیں کر سکتی تھی تو ایک دن گھبرا کر اپنے اللّٰہ سے دعا کی کہ ’’ یااللّٰہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، میری بیوی بھی بچے پیدا نہیں کر سکتی، یا اللّٰہ تو مجھے بڑھاپے کا سہارا دے دے‘‘۔ اللّٰہ رحیم و کریم نے دعا قبول کرلی اور ایسی بیوی میں سے بچہ دے دیا جو بچے پیدا کر ہی نہیں سکتی تھی اور پھر حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا: ’’ اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا‘‘ ( سورہ مریم آیت نمبر 4)۔
ممکنات اور ناممکنات تو انسانی ذہن اور انسانی پہنچ کی بات ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی ذات تو قادرِ مطلق ہے۔ وہ چاہے تو بِن باپ کے حضرت مریم کو اولاد سے نواز دے۔
قرآن مجید میں اللّٰہ تبارک و تعالٰی نے حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے تو بے بسی کا یہ عالم تھا قرآن کہہ رہا ہے کہ وہ تین اندھیروں کے پیٹ میں تھے ایک رات کا اندھیرا، دوسرا سمندر کے نیچے گہرائی کا اندھیرا اور تیسرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور پھر حضرت یونس علیہ السلام نے بے بسی میں اللہ کو پکارا : ’’ اندھیرے میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے بے شک میں ہی قصوروار ہوں‘‘
( القرآن، سورۃ الانبیائ، 87)۔
اللہ پاک فرما رہے ہیں ہم نے یونس علیہ السلام کی پکار کا جواب دیا اور ان کو وہاں سے نکالا جہاں سے نکلنے کے سارے راستے بند تھے۔
’’ تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور ان کو غم سے نجات بخشی‘‘ ( الانبیائ: آیت 88)
اللّٰہ پاک نے یہ واقعات قرآن مجید میں اس لیے ذکر کیے کہ میرے بندو مجھ سے کبھی نا امید نہ ہونا میں نے موسیٰ ٌکو فرعون کی گود میں پال کر دکھایا، اسماعیلٌ کو چھری کے نیچے بچا کر دکھایا، ابراہیمٌ کو جلتی آگ میں بچا کر دکھایا، مریمٌ کو بن باپ کے بیٹا دے کر دکھایا، یوسفٌ کو ایک قیدی سے بادشاہ بنا کر دکھایا، موسیٰ ٌکو سمندروں میں خشک راستے سے نکال کر دکھایا۔
ہم جسے پریشانی سمجھ رہے ہوتے ہیں ہو سکتا ہے وہ کسی نئے سفر کا آغاز ہو۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں گرایا گیا تو انہیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے؛ پیغمبری کا سفر، بادشاہت کا سفر اور وہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے اس یقین اور بھروسے کے ساتھ بڑھ رہے تھے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے۔ اللہ نے انہیں نبوت سے نوازا اور بادشاہت بھی عطا فرما دی۔
ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہر وقت مانگتے رہنا چاہیے۔ اللّٰہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ اللّٰہ کی ذات تو وہ ہی جو ناکامیوں میں بھی کامیابی پیدا کر سکتی ہے کیونکہ میرے اللہ نے خود فرمایا ہے۔
’’ جب کوئی ٹوٹ کر تڑپ کے مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں اس کو تکلیف کو دور کر دیتا ہوں‘‘
( القرآن، سورۃ النمل، 62)
اگر تقدیر کوئی جامد چیز ہوتی تو اللّٰہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا
’’ اور انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی‘‘ ( النجم: آیت 39)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ محنت کا پھل بھی اللّٰہ تعالٰی کے ہاں سے ہی ملتا ہے۔





