موت سے پہلے تک کا سفر

موت سے پہلے تک کا سفر
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
ہم سب بابا آدم کی اولاد ہیں، ایک اللّہ کے ماننے والے ہیں، ہمارا یقین کامل ہے کہ حضورؐ آخری نبیؐ ہیں اور اس کامل یقین کے منکر اسلام سے خارج ہیں۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ جو نصیب میں ہے وہ مل کر رہے گا لیکن اس کے لئے محنت شرط ہے۔ ذات پات صرف انسانی پہچان کے لئے ہے، نیکی قائم دائم ہے اور بدی فانی ہے۔ نافرمانی کی تلافی کے لئے اللّہ نے توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ سارے گناہ بخش دیتا ہے‘‘ ( الزمر: 53)۔ زمین و آسمان کی تمام نعمتیں اللّہ کے حکم سے وجود میں آئیں اور انسان کے لئے بنائی گئیں لیکن ان سب حقائق کے بعد بھی ہم بہت بڑے مغالطوں کا شکار ہیں اور ایسی منفی سوچوں کی طرف گامزن ہیں جن کا انجام دنیا میں بے سکونی اور آخرت میں دوزخ ہے۔ شیطان نے بھی اپنی برتری کے گھمنڈ میں آکر نافرمانی کی تھی اور دربارِ خدا سے دھتکارا گیا، لیکن انسان کو اللّہ نے افضل بنایا۔ اس افضلیت کے باوجود ہم نے وہی راستہ اپنا لیا ہے جو شیطان نے اپنایا تھا ۔ آج ہم شیطانی کاموں کو بھرپور کندھا دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا ثابت کرنے میں لگے ہیں، نئی نئی حلقہ بندیاں، نئے نئے محاذ کھڑے کرتے ہیں۔ دوسرے کی شکست کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، قاتل، بدلا شخص عزت دار بنایا جاتا ہے۔ جس منزل کی طرف سب دوڑ رہے ہیں، وہاں چند گز زمین ہی ہے، جہاں نہ روشنی کا انتظام ہے نہ سہولتیں، وہاں صرف نیک اعمال ساتھ دیں گے۔ قرآن بار بار خبردار کرتا ہے: ’’ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تمہیں تمہارے اعمال کا پورا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا ‘‘ ( آل عمران: 185)۔
گناہ کی سمجھ کے بعد بھی گناہ کی دوڑ ناکامی ہے۔
آج کے انسان اور شیطان میں ایک بات مشترک ہے: شیطان اپنے عمل پر بضد تھا اور آج انسان بھی ظلم پر بضد ہے۔
ہم اللّہ پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن اللّہ کا خوف نہیں رکھتے۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ جو بوئیں گے وہی کاٹنا بھی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت‘‘ ( صحیح مسلم)۔
ایسی خراب معاشی صورتحال حالات میں حکومتیں کیا حکمت عملی اختیار کریں، جبکہ آئین معاشرے کو زندگی گزارنے ایک دائرہ فراہم کرتا ہے۔ اس دائرے کی تمیز ختم ہو جائے تو پھر آئین بھی بے وقعت لگنے لگتا ہے۔ ہر طرف جنگل جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، جہاں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے۔ اس پر حکومتیں اپنی رٹ قائم رکھنے کے لئے سخت قوانین تو نافذ کرتی ہیں، لیکن وہ ایوانوں میں بیٹھے خود بھی طاقت سے اپنی کمانڈ چاہتے ہیں، ان کی پالیسیوں کا محور مفادات ہیں، آج کسی بھی راشی سرکاری ملازم کے خلاف کارروائی نظر نہیں آتی۔ اعلیٰ گریڈ کے حامل افسر ٹک ٹاک پر مشہوری چاہتے ہیں، جب معاشرہ شیطانی رویوں کا شکار ہو تو اسے ہر قانون بوجھ لگنے لگتا ہے ۔ سماجی ماہرین کے مطابق لوگ قانون شکنی کئی وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں۔ پہلی وجہ طاقت کا زعم ہے، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں طاقتور سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے سے افضل ہے۔ بعض اوقات قوانین عوام کی اصل ضرورت اور فطرت کے خلاف بنائے جاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ انہیں ماننے کے بجائے توڑنے کو آسان سمجھتے ہیں، لیکن حکومتی پالیسی سے اربوں روپے کما کر ملک کے نظام کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک بزنس ٹائیکون سب کے سامنے ہے، اربوں روپے کی زمینوں کو کوڑیوں کے بھائو خرید کر اربوں روپے کما گیا۔ اس کے بدلے میں ملک کو کیا دیا۔ ان کو دیا جنہوں نے اس کے دھندے کو غیر قانونی سپورٹ کیا۔ سب سے بڑی وجہ اللّہ کا خوف نہ ہونا ہے، جب دل سے یہ عقیدہ ختم ہو جائے کہ ہر عمل کا حساب دینا ہے تو پھر انسان دنیاوی سزا سے بچنے کے طریقے ڈھونڈتا ہے اور یہی اس کے زوال کی جڑ ہے۔
قرآن کہتا ہے: ’’ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں جو ان کو دیکھے بغیر اپنے رب سی ڈرتے ہیں اور وہ قیامت سے ڈرتے ہیں ‘‘ ( النبیائ: 49)۔





