ColumnImtiaz Aasi

ماڈل کورٹس کا دوسرا تجربہ

ماڈل کورٹس کا دوسرا تجربہ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
اعلیٰ عدالتیں ہوں یا ماتحت عدلیہ دونوں پر مقدمات کا بوجھ ہمیشہ رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر جرائم کی تعداد میں اضافہ قدرتی امر ہے۔ مصالحتی عدالتوں کا تجربہ کر کے دیکھ لیا گیا مقدمات ہیں تو ختم ہونے میں نہیں آتے ہیں۔ سائلین مقدمات کے فیصلوں کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ خصوصا دیوانی مقدمات کے فیصلوں کی رفتار قابل رشک نہیں رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ نے فوجداری مقدمات خصوصا سزائے موت کے مقدمات کی ہوشربا تعداد کو دیکھتے ہوئے سزائے موت کی اپیلوں کی سماعت چند ماہ میں کرکے سپریم کورٹ کا بوجھ کافی حد تک کم کر دیا تھا۔ ماتحت عدلیہ میں قتل جیسے سنگین مقدمات کا چند ماہ میں فیصلہ کرنے کے لئے ماڈل کورٹس کا متعارف کرائی تھیں جس سے مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کافی حد کم ہو گئی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم آیا وہ ماڈل کورٹس مقدمات قتل کے فیصلوں کے لئے کام کر رہی ہیں یا انہیں ختم کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس محترمہ عالیہ نیلم نے مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کے لئے ماڈل کورٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے وکلاء برادری کے نمائندوں نے سراہا ہے۔ خبر کے مطابق لاہور اور ملتان میں چالیس سالہ مقدمات زیر التواء ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجداری مقدمات کے ساتھ سول مقدمات کے فیصلوں کے لئے ماڈل کورٹس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر یکم ستمبر سے عمل درآمد شرو ع ہو جائے گا۔ محترمہ چیف جسٹس صاحبہ نے جج صاحبان کو پرانے مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے سائلین کو برسوں انتظار کے بعد ان کے مقدمات کا فیصلہ بہت جلد مل جائے گا۔ جہاں تک سول مقدمات کی بات ہے اعلیٰ عدلیہ ہو یا ماتحت عدالتیں دونوں کے پاس دیوانی مقدمات کی بھرمار ہے۔ اگر ہم یہ نہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے ذمہ دار کسی حد تک وکلا حضرات بھی ہیں جو مقدمات کی سماعت کا غیر ضروری طور پر التواء لے کر مقدمات کو طوالت دیتے رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں چیف جسٹس صاحبہ کو مقدمات کی جلد سماعت کے لئے وکلا کو بھی پابند کرنے کا کوئی میکنزم بنانا ہوگا ورنہ ماڈل کورٹس قیام بے معنی ہو جائے گا۔ ماتحت عدالتوں میں چالیس سال پرانے دیوانی مقدمات بغیر کسی تصفیہ کے التواء میں پڑے ہیں تو اعلی عدالتوں میں دیوانی مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہوگی جن کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ دراصل جائیدادوں کے مقدمات کو فریقین طوالت دینے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کے مقدمات کا فیصلہ نہ ہونے پائے۔ مثال کے طور پر کسی سائل کو اس بات کو علم ہے کہ وہ مقدمہ ہار جائے گا لہذا وہ فریق ثانی کو مقدمہ میں الجھائے رکھنے پر عمل پیرا رہتے ہیں تاکہ کہیں مقدمہ کا فیصلہ ان کے خلاف نہ آجائے۔ محترمہ چیف جسٹس صاحبہ کو مقدمات کی جلد سماعت کے لئے وکلا کو بھی پابند کرنا ہوگا ورنہ جلد فیصلوں کی امید کم رکھنی چاہیے۔ ہمیں یاد ہے سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ غیر ضروری التواء لینے والے وکلاء پر جرمانہ عائد کیا کرتے تھے تاکہ کوئی غیر ضروری التواء کا باعث نہ بن سکے۔ چنانچہ جناب کھوسہ کے اس اقدام سے ہزاروں اپیلوں کے فیصلے چند ماہ میں ہو گئے تھے۔ سابق چیف جسٹس کے اقدام سے جیلوں میں سزائے موت کے سرکل خالی ہو گئے جن مجرموں کی اپیلیں سماعت ہوتی ان کی سزائے موت عمر قید میں بدل دی جاتی یا وہ بری ہو جاتے۔ قابل ذکر بات یہ ہے زیر التواء مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کے لئے اسپیشل ججز مقرر کئے جائیں گے جن ایڈیشنل سیشن جج، سنیئر سول ججز، سول ججز اور مجسٹریٹس کو بھی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ اس ناچیز کے خیال میں بہتر تو یہی ہوگا مقدمات کی سماعت یومیہ بنیادوں پر کی جائے تاکہ ماتحت عدالتوں سے مقدمات کا غیر ضروری بوجھ کم ہونے میں مدد مل سکے۔ میرے نزدیک جب تک مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے وکلا ء برادری بھرپور تعاون نہیں کرتی مقدمات کے جلد فیصلے خواب رہے گا لہذا اس ضمن میں وکلاء برادری کو اپنے اپنے سائلین سے کہہ دینا چاہیے ان کے مقدمات کی سماعت میں غیر ضروری التواء کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے جج صاحبان پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے عدالتوں کی تعداد میں اضافہ بھی بہت ضروری ہے۔ اگر مقدمات کا جلد فیصلہ کرنا مقصود ہے تو اس مقصد کے لئے جج صاحبان کو ماہانہ مقدمات کے فیصلوں کا ٹارگٹ دے دیا جائے کہ عدالت نے ایک ماہ میں اتنے مقدمات کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ بھی کہا جا سکتا کہ عدالتیں کام نہیں کرتیں عدالتیں بالکل کام کرتی ہیں لیکن فریقین کے وکلاء عدالت میں پیش ہونے سے پس و پیش کریں گے تو مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔ چیف جسٹس صاحبہ اگر عدالتوں کو یہ حکم دے دیں کہ مقدمات کی سماعت میں التواء کسی صورت قبول نہیں ہوگا۔ اگر وکلاء پیش ہونے سے لیت و لعل کریں تو عدالت کے پاس اس بات کا اختیار ہوتا ہے وہ سرکاری پراسیکیوٹر سے بحث کرا کر فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس موقع پر ہمیں ایک مہربان اور ممتاز قانون دان ، فوجداری مقدمات کے ماہر سردار محمد اسحاق خان یاد آرہے ہیں جو عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے کے باوجود ماتحت عدالتوں کو مطلع کرتے تھے کہ انہیں چند گھنٹوں کا التواء دے دیا جائے وہ پیش ہوں۔ ایک اور مہربان سابق جج جناب جسٹس عباد الرحمان لودھی جن کی راست بازی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کسی بڑے سے بڑے کا دبائو قبول کئے بغیر دیوانی مقدمات کا فیصلہ چند دن میں کر دیتے تھے۔ ایک موقع پر انہیں کسی بڑے کی سفارش آگئی، کسی سیاست دان کو تیرہ اگست کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو انہوں نے سفارش کو رد کرتے ہوئے جلسہ کرنے کی اجازت دے دی، جس کے بعد انہیں راولپنڈی سے ملتان بینچ تبدیل کر دیا گیا۔

جواب دیں

Back to top button