ColumnQadir Khan

روس۔ یوکرین جنگ اور عالمی توازن

روس۔ یوکرین جنگ اور عالمی توازن
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جنگیں اپنے وقت کے سیاسی بیانیے کا عکس ضرور دیتی ہیں مگر ان کے نتائج اس وقت کے فریم سے نکل کر کئی نسلوں تک پھیل جاتے ہیں۔ یوکرین اور روس کی موجودہ جنگ بھی اسی نوعیت کی ہے۔ دو ریاستوں کے بیچ سرحدی تنازع یا ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی جدوجہد سے کہیں زیادہ یہ جنگ عالمی نظام کے توازن کا امتحان ہے۔ یوکرین اپنی آزادی، خودمختاری اور ریاستی سالمیت پر قائم رہنا چاہتا ہے، روس اپنی سلامتی، اثر و رسوخ اور مغرب کی عسکری پیش رفت کو روکنے کی جستجو میں ہے۔ بیچ کی یہ کھائی محض فوجی طاقت سے نہیں پُر ہو سکتی، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک یہی زبان سب سے زیادہ بولی جا رہی ہے۔
روس کے لیے یہ جنگ محض سرحدی تنازع نہیں بلکہ اپنے گرد ایک حفاظتی حصار کھینچنے کی کوشش ہے۔ نیٹو کی مسلسل توسیع کو وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہی۔ یوکرین کا نیٹو میں شمولیت کی طرف جھکا ماسکو کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ دوسری جانب یوکرین کے لیے یہ تنازع اپنی ریاستی شناخت اور خودمختاری کی بقا کا مسئلہ ہے2014ء میں کریمیا کے انضمام کے بعد جب روس نے مشرقی یوکرین کے علاقوں پر بھی فوجی اثر بڑھایا تو یوکرین کو لگا کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ یہی پس منظر تھا جس نے2022ء کے حملے کو جنم دیا اور جنگ کھلے تصادم میں بدل گئی۔ روس نے جنگ کے دوران کچھ علاقے اپنے قبضے میں لے لیے۔ ڈونیٹسک، لوہانسک، زاپوریزیا اور خیرسون کے حصے اور اس سے پہلے کریمیا، سب اس وقت بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یوکرین انہیں اپنی قانونی سرزمین مانتا ہے اور واپسی کے بغیر کسی سمجھوتے پر تیار نہیں۔ روس انہیں ’[ زمینی حقائق‘‘ کہہ کر اپنی شرائط میں شامل کرتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہر مذاکراتی نشست کو ناکام بناتا ہے۔ ایک طرف یوکرین کو یقین دہانی چاہیے کہ اس کی سرحدیں عالمی طور پر تسلیم شدہ رہیں، دوسری طرف روس چاہتا ہے کہ اس کے قبضے کو کم از کم کسی صورت میں تسلیم کیا جائے۔ اس تضاد کے بغیر کوئی سیاسی تصفیہ ممکن نہیں۔
امریکہ کا کردار اس جنگ میں مرکزی ہے۔ یوکرین کو عسکری، مالی اور انٹیلی جنس معاونت فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی ہے۔ واشنگٹن کے لیے یہ جنگ روس کے اثر کو محدود کرنے اور یورپ میں اپنے اتحادیوں کو مضبوط رکھنے کا موقع ہے۔ امریکہ نے دفاعی صنعت کو متحرک کر کے اسلحے کی فراہمی بڑھائی، یورپی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایل این جی کی برآمدات بڑھائیں اور سفارتی سطح پر نیٹو کو پہلے سے زیادہ متحد کر دیا۔ یہ سب اقدامات اس جنگ کو محض یوکرین اور روس کا تنازع نہیں رہنے دیتے بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی بنا دیتے ہیں۔ روس کے نزدیک یہی سب امریکہ کے ’’ پراکسی وار‘‘ کی شکل ہے، جبکہ یوکرین کے نزدیک یہ اس کی بقا کی جنگ میں ضروری تعاون ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جنگ سے کچھ ممالک نے فوائد حاصل کئے۔ بھارت ان میں نمایاں ہے۔ اس نے ایک طرف روس کے ساتھ توانائی اور دفاعی معاہدے برقرار رکھے اور رعایتی نرخوں پر روسی تیل خریدا، دوسری طرف مغرب کے ساتھ سفارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون کو بھی نقصان نہیں پہنچنے دیا۔ بھارت نے اپنی پوزیشن سے مفادات حاصل کئے اور اصل فائدہ یہ ہوا کہ توانائی کے نرخوں پر رعایت ملی، خام تیل کی درآمد بڑھی اور مقامی صنعت کو نسبتاً سستا ایندھن ملا۔ یوں بھارت نے اس بحران کو اپنی معیشت کے لیے ایک موقع میں بدلنے کی کوشش کی۔ جنگ کو صرف ایک منفی پہلو سے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ اسے عالمی طاقتوں کے درمیان توازنِ قوی کے نئے مواقع کے طور پر بھی پرکھنا ہو گا۔ یورپ نے روسی گیس پر انحصار کم کیا اور متبادل ذرائع اختیار کیے، لیکن اس کا مطلب مہنگی توانائی اور عوامی دبائو بھی تھا۔ ایشیائی منڈیوں نے نئے تجارتی راستے تلاش کیے، مشرقِ وسطیٰ کے کچھ ملکوں نے توانائی کی سیاست میں اپنا اثر بڑھایا۔ چین نے روس کو سفارتی اور تجارتی سہارا دیا اور اس جنگ کو امریکہ کے مقابل اپنے اثر کو بڑھانے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ ان سب عوامل نے تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
سفارت کاری کی راہیں اب بھی کھل سکتی ہیں لیکن اس کے لیے کچھ بنیادی نکات تسلیم کرنا ہوں گے۔ پہلا یہ کہ جنگ بندی کو سخت مانیٹرنگ کے ساتھ لاگو کیا جائے تاکہ کسی خلاف ورزی پر فوری ردِعمل ممکن ہو۔ دوسرا، مفادات کے حصول میں انسانوں کو چارہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے ان راہداریوں کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ تیسرا، زمین پر قبضے کے سوال کو براہ راست حل کرنے کے بجائے مرحلہ وار مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اعتماد کی بنیاد بن سکے۔ اس کے بغیر کسی بھی نشست کے نتائج زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتے۔ انسانی بحران کا پہلو سب سے اہم ہے۔ یوکرین میں لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ بری طرح متاثر ہے۔ روسی عوام بھی عالمی پابندیوں اور اقتصادی دبا سے مشکلات کا شکار ہیں۔ دونوں طرف عام شہری ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی برادری کو اس پہلو کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ امداد کی فراہمی، مہاجرین کی بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی وہ اقدامات ہیں جن کے بغیر امن کی کوئی بھی کوشش ادھوری ہے۔
اطلاعاتی جنگ نے تصویر کو مزید دھندلا دیا ہے۔ دونوں طرف پروپیگنڈا مشینری فعال ہے۔ ایسے ماحول میں آزاد اور غیر جانبدار تحقیق ہی وہ ذریعہ ہے جو سچائی کو منظر عام پر لا سکتی ہے۔ ورنہ بیانیوں کی جنگ میں اصل حقائق دب جاتے ہیں۔ اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے تو عالمی معیشت میں مزید تقسیم اور سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔ توانائی اور غذائی بحران مزید گہرے ہوں گے، عالمی ادارے اپنی گرتی ساکھ کو مکمل طور پر کھو دیں گے اور نئی صف بندیاں قائم ہوں گی۔ لیکن اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایک ایسا ماڈل سامنے آسکتا ہے جس میں مرحلہ وار اعتماد سازی، سلامتی کی ضمانتیں اور تعمیر نو کا لائحہ عمل سب شامل ہو۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر دنیا کو چلنا ہوگا۔
جنگ میں مکمل جیت کسی کی نہیں ہو سکتی۔ روس کو اپنی سلامتی کے خدشات دور کرنے کا حق ہے اور یوکرین کو اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہ کرنے کا۔ امریکہ اور یورپ کو بھی اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ طاقت کا توازن محض عسکری دبا سے نہیں بلکہ سیاسی مفاہمت سے ممکن ہے۔ بھارت جیسے کچھ ریاستوں نے ایسے بحرانوں سے فائدہ اٹھایا، لیکن اصل کامیابی تب ہوگی جب انسانی جان کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ امن کا مطلب یہ نہیں کہ توپیں خاموش ہو جائیں، امن کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ توپ چلانے کی ضرورت نہ پڑے۔

جواب دیں

Back to top button