Aqeel Anjam AwanColumn

پاور سیکٹر کے 4800سو ارب کہاں غائب ہوئے؟؟

پاور سیکٹر کے 4800سو ارب کہاں غائب ہوئے؟؟
عقیل انجم اعوان
گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری جو پاکستان کے توانائی یا پاور سیکٹر کے اس گھمبیر مسئلے کو عیاں کرتی ہے جو برسوں سے محض دعوئوں اور وقتی اقدامات کی نذر ہوتا آیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ 2023۔24نے جس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے وہ محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ قومی خزانے کے ساتھ ہونے والی اس بدترین بے حسی کا نوحہ ہے جو ہمارے حکومتی ڈھانچے کی جڑوں میں پیوست ہو چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاور سیکٹر میں چار ہزار آٹھ سو ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں ہیں۔ یہ کسی ایک اسکینڈل یا کسی مخصوص دورِ حکومت کی کرپشن کا عکس نہیں بلکہ پورے نظام کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور انتظامی ناکامی کی علامت ہے۔ اس رپورٹ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ محض حساب کتاب کی کتابی غلطیاں نہیں بلکہ ان میں بدانتظامی، بے قاعدگی، معاہدوں کا ناقص انتظام و مالی بدعنوانی کے شائبے اور قواعد و ضوابط کی مسلسل خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ آڈٹ رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ کئی اہم معاہدے بغیر مکمل قانونی تقاضوں کے کیے گئے۔ کئی منصوبے ایسے ہیں جن میں واجب الادا ادائیگیاں بروقت نہیں کی گئیں اور کئی جگہوں پر سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی غفلت نے عوامی سرمائے کو شدید خطرے میں ڈال دیا۔ یہ صورتحال صرف مالیاتی نقصان تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات قومی معیشت، بجلی کی پیداوار، صارفین کے اعتماد اور سرمایہ کاری کے ماحول پر بھی براہِ راست پڑ رہے ہیں۔ پاور سیکٹر ہمیشہ سے پاکستان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا رہا ہے مگر یہ ریڑھ کی ہڈی سالہا سال سے کمر توڑ بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ گردشی قرضہ جو پہلے ہی ناقابلِ برداشت حدوں کو چھو رہا ہے اب ان بے ضابطگیوں کے باعث مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ جب سرکاری ادارے اربوں روپے کے حساب سے انتظامی غفلت یا ملی بھگت کے سبب نقصان کریں تو اس کا بوجھ آخر کار عام آدمی کے کھاتے میں ہی ڈالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھتے ہیں، لوڈشیڈنگ کا عذاب کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہے اور صنعتیں سستی بجلی کی امید میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے یا تو اپنے منصوبے ملتوی کرتی ہیں یا ملک سے باہر منتقل ہو جاتی ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ پاور سیکٹر کے مختلف ادارے چاہے وہ بجلی کی پیداوار کرنے والے ہوں یا ترسیل کے ذمہ دار اپنے بنیادی فرائض میں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔ کئی منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے، کئی مکمل ہوئے تو ان کی پیداواری لاگت اصل تخمینے سے کہیں زیادہ نکلی۔ کئی جگہوں پر خریداری کے عمل میں شفافیت نہیں رکھی گئی۔ آلات اور مشینری من پسند کمپنیوں سے مہنگے داموں خریدی گئی۔ حتیٰ کہ کئی معاہدے ایسے بھی سامنے آئے جن میں ملکی مفاد کے برعکس شرائط طے کی گئیں اور بعد میں انہی شرائط نے ملک کے لئے مستقل مالی بوجھ پیدا کیا۔ یہ سب کچھ اس نظامی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے جو دہائیوں سے پاور سیکٹر پر مسلط ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے اس شعبے میں اصلاحات کے دعوے کیے۔ کبھی سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کی بات کی گئی، کبھی آئی پی پیز کے معاہدوں کی ازسرنو تشکیل کا وعدہ کیا گیا۔ کبھی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے اعلانات ہوئے۔ مگر نتائج وہی ڈھاک کے تین پات۔ وقتی اعلانات، عارضی اقدامات اور پھر کسی نئے بحران کے انتظار میں بیٹھ جانا۔ آڈٹ رپورٹ کا ایک پہلو یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس میں قواعد و ضوابط کی مسلسل خلاف ورزیوں کو بار بار اجاگر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر یہ خلاف ورزیاں کون کرتا ہے اور کون انہیں روکنے میں ناکام رہتا ہے۔ اداروں میں نگرانی کے لیے باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل آڈٹ، بورڈ آف ڈائریکٹرز، وزارتِ توانائی کے حکام و نیپرا اور دیگر نگران ادارے موجود ہیں۔ مگر اگر ان سب کی موجودگی میں سالہا سال تک ایسی بے ضابطگیاں جاری رہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو یہ ادارے بے بس ہیں یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس رپورٹ کے تناظر میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب اس کا کیا کیا جائے۔ کیا یہ رپورٹ بھی محض اخبارات کی زینت بننے کے بعد فائلوں میں دب جائے گی یا اس پر کوئی ٹھوس کارروائی ہوگی۔ پاکستان کے تجربے کی بنیاد پر خدشہ یہی ہے کہ چند دن شور مچنے کے بعد یہ معاملہ بھی کسی نئے اسکینڈل کی گرد میں دب جائے گا۔ مگر اگر واقعی ملک کی معیشت کو سہارا دینا ہے۔ بجلی کے شعبے کو مستحکم کرنا ہے اور عوام پر بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنا ہے تو ان آڈٹ رپورٹس کو محض رسمی کارروائی نہ سمجھا جائے بلکہ ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اصلاحات کے لیے سب سے پہلے شفاف احتساب ضروری ہے۔ ان اداروں کے سربراہان اور متعلقہ افسران کو جوابدہ بنایا جائے جن کے دور میں یہ بے ضابطگیاں ہوئیں۔ اگر یہ محض کاغذی کارروائی یا اعداد و شمار کی ہیرا پھیری کا نتیجہ ہیں تب بھی اس کی مکمل وضاحت ہونی چاہیے۔ اگر بدعنوانی ثابت ہوتی ہے تو پھر بلا امتیاز احتساب ناگزیر ہے۔ دوسرا اہم پہلو نظامی اصلاحات کا ہے۔ پاور سیکٹر میں برسوں سے چلے آرہے پرانے اور فرسودہ طریقہ کار کو بدلنا ہوگا۔ خریداری کے طریقوں کو شفاف بنانا ہوگا۔ معاہدوں کی منظوری میں سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہوگا۔ تیسرا پہلو شفافیت اور عوامی آگاہی کا ہے۔ جب تک عام آدمی کو یہ علم نہیں ہوگا کہ اس کے ادا کردہ ٹیکس یا بجلی کے بل کہاں خرچ ہو رہے ہیں اس وقت تک نہ تو اعتماد بحال ہوگا نہ اصلاحات کی راہ ہموار ہوگی۔ یہ آڈٹ رپورٹس عوام کے سامنے لائی جائیں۔ ان پر پارلیمانی مباحثے ہوں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی اس پر سوال اٹھائیں تاکہ دباؤ بڑھ سکے۔ پاور سیکٹر کی بدانتظامی کا سب سے بڑا خمیازہ دراصل عام پاکستانی بھگت رہا ہے۔ ہر سال بجلی کے نرخ بڑھتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب کم نہیں ہوتا۔ گردشی قرضہ مزید بڑھتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اعتماد کھو دیتے ہیں۔ ملکی صنعت متاثر ہوتی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ معیشت جمود کا شکار رہتی ہے۔ یہ سب اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے سنجیدہ اقدامات نہیں کرتے۔ آڈٹ رپورٹ 2023۔24نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک دور ایک حکومت یا ایک پالیسی کا نہیں بلکہ ایک مجموعی نظامی ناکامی ہے۔ اس نظام کو بدلنے کے لیے سیاسی عزم اداروں کی اصلاحات اور عوامی دباؤ تینوں ضروری ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی اس پر آنکھیں بند رکھیں تو آنے والے برسوں میں یہی بے ضابطگیاں مزید بڑھیں گی اور وہ دن دور نہیں جب بجلی کا بحران محض مالی نقصان نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن جائے گا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اربوں روپے کے نقصان کے باوجود کسی کو اس کی فکر نہیں کہ یہ نقصان کون پورا کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نقصان ہمیشہ عام آدمی ہی پورا کرتا ہے چاہے وہ بجلی کے مہنگے بلوں کی صورت میں ہو یا مہنگائی کی شکل میں یا روزگار کے کم ہوتے مواقع کے ذریعے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس رپورٹ کو آخری وارننگ سمجھا جائے۔ اب فیصلہ پالیسی سازوں کے ہاتھ میں ہے۔ یا تو وہ اس گلے سڑے نظام کو اسی طرح چلنے دیں اور آنے والی نسلوں پر مزید قرض اور بدحالی کا بوجھ ڈالیں یا پھر کڑوی مگر شفاف اصلاحات کے ذریعے اسے درست کریں۔ عوام کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ انہیں سوال کرنا ہوگا۔ انہیں حساب مانگنا ہوگا۔ جب تک عام شہری اپنی خاموشی کو توڑ کر مطالبہ نہیں کرے گا اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ آڈٹ رپورٹ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ پاور سیکٹر میں سنگین بدانتظامی محض انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کی مجموعی معیشت و سیاست اور معاشرتی ڈھانچے کے لیے زہرِ قاتل بنتی جا رہی ہے۔ چار ہزار آٹھ سو ارب روپے کی بے ضابطگی ایک ہندسے کا کھیل نہیں بلکہ یہ وہ زنجیر ہے جو ترقی کی راہوں کو جکڑ کر کھڑی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس زنجیر کو توڑا جائے۔

جواب دیں

Back to top button