Column

ایک ڈوبتے شہر کا نوحہ

ایک ڈوبتے شہر کا نوحہ
الطاف شکور ( چیئرمین پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی)
ہر سال کراچی شہر میں مون سون کی بارشوں کے دوران مخصوص مقامات پر ہی پانی رکتا ہے اور انتظامیہ کو بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ پانی نے کہاں رکنا ہے۔ اب جب مسئلہ کا پتہ بھی ہو اور اس کا ٹیکنیکل حل بھی موجود ہو، تو پھر بھی وہ ہی مسئلہ ہر سال چار بار درپیش آئے تو اس میں کس کو قصوروار ٹھہرایا جائے؟
سب جانتے ہیں کہ شارع فیصل پر پانی اس لئے رکتا ہے کہ اس کی قدرتی آبی گزرگاہوں پر خصوصاً نرسری اور بلوچ کالونی کے درمیان اور گرین ٹائون اور رفاعِ عام کے درمیان ہائوسنگ سوسائٹیاں بنائی گئی ہیں، جن کو ہٹائے بغیر یہ مسئلہ قیامت تک حل نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ نئی پریڈی اسٹریٹ کے متاثرین کو محمودآباد میں پانی کی قدرتی گزرگاہ کے مقام پر آباد کیا گیا ہے جو کہ برساتی پانی کے اخراج میں مزید رکاوٹ ہے۔
ناظم آباد میں ایک بڑے سیاسی آدمی کا پرائیویٹ ہسپتال پانی کی گزرگاہ کے اوپر ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر موسمیات اور صفورا کے درمیان پانی کی قدرتی گزرگاہ پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کو بنایا گیا ہے۔ یہ صورتحال ہر علاقے میں موجود ہیں۔ جہاں پانی رکتا ہے، وہاں تھوڑی تحقیق کریں تو وہاں کی قدرتی گزرگاہ پر کوئی آبادی، کوئی مارکیٹ یا کوئی اور تعمیر سامنے آجائے گی۔ جب تک پانی کی یہ قدرتی گزرگاہیں نہیں کھلیں گی یا وہاں پر ڈرینیج کا متبادل انتظام نہیں ہوگا شہر اسی طرح ڈوبتا رہے گا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ کچرے سے نالے چوک ہوجاتے ہیں۔ لیکن آج کل بارشوں کی ہفتوں پہلے پیشگوئی ہو جاتی ہے۔ انتظامیہ میں اہلیت ہو تو بارشوں سے پہلے نالوں کی صفائی ہو سکتی ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے پہلے ایسا ہوتا تھا۔ کراچی بلدیہ عظمیٰ ( کے ایم سی) کے پاس قیام پاکستان سے پہلے کے کراچی کے تفصیلی نقشے موجود ہیں، جن پر پانی کے قدرتی گذرگاہوں یا نالوں کے مقامات موجود ہیں۔ ان نقشوں کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کون سی آبی گزرگاہیں ہائوسنگ سوسائٹیوں اور دیگر تعمیرات سے ختم کی گئی ہیں۔ یہ کراچی کو سر سال ڈوبنے سے بچانے کی کوششوں کے سلسلے میں پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کراچی کے پرانے نقشوں میں ایک اور چیز جو آپ کو نظر آئے گی وہ کراچی کی قدرتی جھیلیں تھیں۔ یہ درجنوں چھوٹی بڑی جھیلیں بھی بارش کا کچھ پانی سنبھال لیتی تھیں۔ لیکن یہ جھیلیں بھی زیادہ تر مٹی سے بھر کر ان کے اوپر مارکیٹ اور مکانات بنائے گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کے نوے کی دہائی تک بہادر آباد تھانے کے نزدیک ایک جھیل ہوا کرتی تھی۔
بارش کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لندن ہر سال 585mmیعنی 23انچ بارش جھیلتا ہے۔ لیکن کبھی سنا کہ بارش سے لندن میں سڑکیں ڈوب گئی ہوں؟ یہ اس لئے ہے کہ وہاں کی انتظامیہ نے ایسی پلاننگ کی ہوئی ہے کہ بارش کا پانی کہیں نہ رکے۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتظامات اور منصوبہ بندی اگر گورا انگریز کر سکتا ہے تو ہمارا کالے انگریز کیوں نہیں کر سکتے۔ کیا ہم نے انگریز کی اتنی طویل غلامی سے بھی کچھ نہیں سیکھا ہے؟۔

جواب دیں

Back to top button