Column

جماعت نہم کا کمزور رزلٹ۔ چند حقائق

جماعت نہم کا کمزور رزلٹ۔ چند حقائق
تحریر: رفیع صحرائی
دو روز قبل پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز نے جماعت نہم کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ مجموعی طور پر نتائج 48سے پچاس فیصد کے درمیان رہے ہیں جو وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات کو پسند نہیں آئے۔ انہوں نے ان نتائج پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سرکاری سکولوں میں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے اساتذہ کے بچے فیل ہو گئے ہیں جبکہ انہی اساتذہ کے پاس شام کے وقت اکیڈمی میں پڑھنے والے بچے پاس ہو گئے ہیں۔ انہوں نے یہ وعید بھی سنائی کہ ٹیمیں مقرر کر دی گئی ہیں جو ڈیٹا اکٹھا کریں گی اور اس ڈیٹا کی روشنی میں اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ایک دوسرے ٹویٹ میں وزیر موصوف نے اساتذہ سے سوال کیا ہے کہ طلبہ کے اردو، عربی اور اسلامیات جیسے مضامین میں فیل ہونے کا کیا جواز ہے؟
وزیرِ تعلیم پنجاب کا غصہ اور گلہ بے جا نہیں ہے۔ ہم اعداد و شمار کے لحاظ سے اس رزلٹ کو حوصلہ افزا نہیں کہہ سکتے۔ آئیے ان وجوہات کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں جو کمزور رزلٹ کا باعث بنی ہیں۔
سب سے پہلے تو اگر ہم موجودہ رزلٹ کا گزشتہ سال یعنی 2024ء کے جماعت نہم کے رزلٹ کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ پچھلے سال کی نسبت امسال رزلٹ کافی بہتر آیا ہے۔ گزشتہ سال یہ رزلٹ قریباً چالیس فیصد تھا۔ اس سے پیوستہ سال 2023ء میں بھی لگ بھگ یہی صورتِ حال تھی۔ اس اعتبار سے سال 2025ء میں اساتذہ کی کارکردگی کو سراہا جانا چاہیے تاکہ آئندہ وہ مزید محنت کر کے رزلٹ کو بہتر بنائیں۔ وزیرِ تعلیم کو شاید کسی نے اس حقیقت سے آگاہ نہیں کیا کہ جب سے نہم جماعت کا امتحان تعلیمی بورڈز کے تحت لیا جا رہا ہے تب سے لے کر آج تک موجودہ رزلٹ سے بہتر مجموعی رزلٹ نہیں آیا۔ بہت عرصہ تک یہ رزلٹ 30سے 40فیصد کے درمیان رہا ہے۔ دہم میں جا کر طلبہ اپنی کمی و کوتاہی پر قابو پا لیتے ہیں جس کی وجہ سے یہی رزلٹ 80فیصد کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ نہم جماعت ڈگری کلاس نہیں ہے۔
نہم جماعت پاس کرنے پر کوئی سند جاری نہیں ہوتی۔ اصل امتحانی رزلٹ میٹرک یعنی نہم اور دہم کے مجموعی رزلٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ موجودہ رزلٹ کی صورت میں نہ تو کوئی انہونی ہوئی ہے اور نہ ہی گزشتہ سالوں کی نسبت کمتر رزلٹ آیا ہے۔ لاکھوں کی تنخواہ کا طعنہ دینا کسی طور بھی جائز اور مناسب نہیں ہے۔ ان اساتذہ نے اپنی جوانی اور اپنے قیمتی سال محکمے کو دیئے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ مشکل ترین حالات میں بہترین رزلٹ دے رہے ہیں۔ وزیر موصوف شاید پرائیویٹ اکیڈمیز کے ان اشتہارات کے اثر میں آ گئے ہیں جن میں 90فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والوں کی ایک قطار دکھائی جاتی ہے اور طلبہ کو اکیڈمی جوائن کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان اشتہارات سے یوں لگتا ہے جیسے یہ اکیڈمیاں کوئی فیکٹریاں ہیں جن میں اے ون مال تیار کیا جاتا ہے۔ آپ کبھی کسی اشتہار میں ان اکیڈمیز کا مجموعی رزلٹ نہیں دیکھیں گے۔ یہ آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے کہ ان کے رزلٹ کی فیصد مقدار کیا ہے۔ یہ لوگ صرف اچھا مال دکھا کر گاہک پھنسانے کے لیے اشتہاربازی سے کام لیتے ہیں۔
ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اکیڈمیز میں پڑھنے والے بچے کسی نہ کسی سکول کے ریگولر طلبہ ہوتے ہیں۔ اکیڈمیز انہیں صرف ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔ بڑے شہروں میں چند ایک اکیڈمیز ہی ایسی ہیں جو رجسٹرڈ ہیں اور اپنی طرف سے طلبہ کا داخلہ بھیجتی ہیں۔
نہم جماعت کے کمزور رزلٹ آنے کی سب سے بڑی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں۔ آٹھویں جماعت تک سرکاری سکول میں کمزور سے کمزور طالب علم کو بھی فیل نہیں کیا جا سکتا خواہ بچہ سارا سال سکول نہ آئے استاد اس بچے کا نام سکول سے خارج نہیں کر سکتا۔ ایسا کرے گا تو پیڈا ایکٹ کے تحت سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ استاد غیرحاضری پر بچے سے بازپرس کر سکتا ہے نا ہی اسے ڈانٹ سکتا ہے۔ ’’ مار نہیں پیار‘‘ کے سلوگن نے تعلیمی نظام اور تعلیمی عمل کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اس نعرے نے استاد کو بچوں کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ استاد کو تھانے اور کچہری میں جھوٹی شکایتوں پر ہتھکڑی میں پیش ہونا پڑا ہے۔ جب بچہ سکول آئے گا ہی نہیں تو پڑھے گا کیسے؟ لیکن ہماری تعلیمی پالیسی یہ ہے کہ اسے پڑھنا آنا مقصد نہیں ہے۔ مقصد اسے پاس کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والے بعض طلبہ کو انگریزی کے الفابیٹس یا اردو کی حروف تہجی تک نہیں آتے۔ انہیں 100تک گنتی لکھنا نہیں آتی مگر انہیں ہر سال پاس کرنا پڑتا ہے کہ ’’ سرکار‘‘ کی یہی پالیسی ہے۔ ہمارے سرکاری سکول کے طالب علم کو امتحان میں پاس یا فیل کا پتا ہی نہم جماعت میں آ کر چلتا ہے۔ آٹھ سال تک تسلسل سے پاس ہونے والے طلبہ سے آپ امتحان میں اچانک بہتر کارکردگی کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ واقعی پڑھا لکھا پنجاب چاہتے ہیں تو آٹھویں جماعت تک امتحان میں پاس اور فیل کرنے کا سسٹم دوبارہ شروع کرنا پڑے گا۔ مسلسل غیرحاضری پر طالب علم کو سکول سے خارج کرنے کی اجازت دینا ہو گی۔
ہمارے سرکاری سکولوں میں حالات یہ ہیں کہ گزشتہ سات سال میں ایک ٹیچر بھی بھرتی نہیں کیا گیا۔ اس دوران ہزاروں اساتذہ ریٹائرڈ یا فوت ہو گئے۔ طلبہ کی تعداد پہلے سے بہت بڑھ گئی۔ سرکاری سکولوں میں قریباً ڈیڑھ لاکھ اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کی بجائے سرکاری سکول ہی پراءیویٹ سیکٹر کو دے کر یہ سکول برباد کر دیئے گئے۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی شدید کمی کی وجہ سے بعض سکولوں میں کلاسز کے ایک ایک سیکشن کی تعداد 100سے بھی اوپر دیکھی گئی ہے۔ اتنی بڑی کلاس کو استاد کیا خاک پڑھائے گا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری سکول ہماری حکومتوں کی تجربہ گاہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ناکام تجربات کر کر کے سرکاری سکولوں کو تباہ کرنے میں ہر حکومت نے حصہ ڈالا ہے۔ ابھی گزشتہ مہینے ہی سرکاری سکولوں کے بہترین میٹرک کے رزلٹ کے موقع پر رانا سکندر حیات نے فخر کا اظہار کرتے ہوئے ’’ سرکاری سکول۔ معیاری سکول‘‘ کا سلوگن دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہترین رزلٹ دینے والے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد انعام دینے کی بجائے ان کے سکولوں کو پرائیویٹ کر کے ان اساتذہ کے دور دراز مقامات پر تبادلے کر دیئے گئے۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ یورپی اور مغربی ممالک سے بھاری فنڈنگ لے کر ان کی پالیسیاں یہاں نافذ کر دی گئیں۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہ کی کہ ان ممالک کے حالات کا ہمارے ملک کے حالات سے موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔
ہمارے اساتذہ کو تیس پینتیس سال پہلے جن شرائط اور مراعات کے معاہدے کے تحت محکمے میں بھرتی کیا گیا ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچنے پر اچانک ان مراعات میں کمی کر دی گئی یا مراعات چھین لی گئیں۔ آئے روز اساتذہ کا امتحان لینے کے احتساب سے ڈرایا جاتا ہے۔ اساتذہ کے ساتھ زیادتی کی انتہا یہ ہے کہ بجٹ کے موقع پر وفاق میں دی گئی مراعات سے صوبائی اساتذہ کو محروم رکھا گیا ہے۔ ان کٹھن حالات میں بھی سرکاری سکول کے اساتذہ نے نہم جماعت کا بہترین رزلٹ دیا ہے۔ انہیں شاباش دی جائے۔ اگر رزلٹ کمزور ہے تو یہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ پالیسی سازی میں اساتذہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ حکومت اپنی ناکامی تسلیم کرے۔ تعلیمی نظام کی ازسرِ نو تشکیل کی جائے۔ جو طلبہ روایتی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کے لیے انہی تعلیمی اداروں میں ہنر سکھانے کا اہتمام کیا جائے۔ تاکہ وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔

جواب دیں

Back to top button