قدرتی آفات اور پاکستان
قدرتی آفات اور پاکستان
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
قدرتی آفات سے مراد وہ قدرتی واقعات ہیں جو تباہی کا باعث بنتے ہیں ، جیسے زلزلے، سیلاب، طوفان اور آگ۔ یہ واقعات نا صرف جانی و مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ انسانی زندگی اور ماحول پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انسان قدرت کے آگے خود کو بے بس پاتا ہے ۔
عربی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ جب اونٹ بلبلانے لگے، غلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو جائے اور جب طغیانی بڑھ کر آئے تو سامنے سے ہٹ جائو۔ لیکن جب قدرت آناً فاناً آنے والے سیلابِ بلا میں چند لمحوں کا بھی موقع نہ دے تو پھر سامنے سے ہٹنے کا موقع کہاں ملتا ہے؟۔
آج کل پاکستان قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے۔ جیسے کراچی میں شدید بارشوں سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ اموات کی بھی اطلاعات ہیں۔
ادھر خیبر پختونخوا میں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب سے شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث پیش آنے والے حادثات میں اب تک تقریباً 400 کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔
حادثات صوبہ کے مختلف اضلاع سوات، بونیر، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے ہیں ۔
سیلابی ریلوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر ہے۔ ضلع بونیر کی تحصیل پیر بابا کے گائوں بیشونٹری میں سیلابی ریلا آنے کی اطلاع ملی تو یہاں کے ایک مقامی امام مسجد مولانا عبدالصمد نے اپنے گائوں کے دیگر لوگوں کی طرح اہلِ خانہ سے فوراً گھر خالی کر دینے کو کہا لیکن کُچھ دیر بعد جب وہ واپس گھر پہنچے تو سیلابی ریلا ان کے گھر سمیت کئی دیگر گھروں کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے گھر میں مولانا عبدالصمد کے خاندان کے پانچ افراد رہتے تھے، جن کے بارے میں اب تک کوئی کُچھ نہیں جانتا۔
پیر بابا صاحب کے سابق تحصیل ناظم اشفاق احمد اسلام آباد میں موجود تھے، جب انہیں گھر سے اطلاع ملی کہ سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا آ رہا ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو کہا کہ فوراً کسی محفوظ مقام کی جانب روانہ ہو جائیں تاہم گھر والوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جب چند ہی منٹ بعد انہوں نے دوبارہ کال کی تو پورے پشوڑی گائوں میں کسی کا نمبر نہیں مل رہا تھا اور جب وہ اس بے چینی کے عالم میں اپنے گائوں پہنچے تو وہاں ہر جانب قیامت کا سا منظر تھا ۔
ان کے گھر سمیت کوئی بھی گھر سلامت نہیں تھا۔ ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ جو لوگ پانی میں بہہ جانے سے بچ گئے تھے وہ شدید زخمی تھے۔ سیلابی ریلے کے وقت اشفاق احمد کے گھر میں 14افراد تھے جن میں سے چار افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ 10ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ایک خاندان کے دو افراد بچ گئے کیوں کہ سیلابی ریلے کے وقت وہ درخت پر چڑھ گئے تھے جبکہ باقی نو افراد کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔
ریسکیو 1122بونیر کے بھی مطابق محتاط اندازے کے مطابق بیشونٹری گائوں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامات میں شامل ہے۔ بیشونٹری گائوں کے لوگوں کے جنازے اور کفن دفن کا انتظام بھی اپنے گائوں میں کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ یہ سب انتظامات بھی قریب کے گاں کے لوگوں نے انجام دئیے ۔
ایک عینی شاہد نے بقول
’’ میں بیشونٹری گائوں میں تقریباً ایک بجے پہنچا تھا وہاں پر کوئی گھر سلامت نہیں ہے ۔ مغرب تک میں اپنے دوستوں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر کئی جنازوں میں شامل ہوا۔ جن کی مجھے تعداد بھی یاد نہیں ہے جبکہ چھ قبریں کھودنے میں بھی میں نے خود مدد کی ہے۔ مجھے واقعے کی اطلاع گیارہ بجے ملی۔ اس کے ساتھ علاقے میں مساجد میں اعلانات شروع ہو گئے تھے۔ جس کے بعد میں دیگر لوگوں کے ہمراہ بیشونٹری کی طرف چل پڑا۔ بیشونٹری پیر بابا صاحب سے چار سے پانچ کلومیٹر دور ہے، مگر سیلابی ریلے کے باعث راستے بند تھے۔ جگہ جگہ ملبہ پڑا ہوا تھا۔ جس وجہ سے میں دیگر لوگوں کے ہمراہ تقریباً ایک بجے متاثرہ مقام پر پہنچا۔ ہم سے پہلے بھی وہاں پر کچھ لوگ موجود تھے۔ جو امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ وہاں پر عجیب منظر تھا۔ زخمی جگہ جگہ پڑے ہوئے تھے ، ان زخمیوں کو وہاں پہنچنے والے لوگ اٹھا کر ہسپتال پہنچا رہے تھے جبکہ کئی لوگ ملبے تلے سے لاشیں نکال رہے تھے۔ بیشونٹری کی مقامی مسجد کے امام مولانا عبدالصمد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب سیلابی ریلا آرہا تھا تو زیادہ بڑا نہیں تھا۔ میں نے گھر والوں کو ہدایت کی کہ علاقے کے مختلف لوگوں کی طرح وہ بھی اپنا ضروری سامان لیں اور نکلیں۔ میں نے سابق تحصیل ناظم پیر بابا اشفاق احمد کے گھر والوں کی قبریں کھودنے میں مدد کی ہے۔ وہاں پر شاید ہی کوئی گھر ایسا بچا ہو جس کا کوئی فرد لاپتہ نہیں ہے۔ بظاہر زیادہ تر خواتین اور بچے لاپتہ ہیں ۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایت پر بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث متاثرہ اضلاع کے لیے مجموعی طور پر 50کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث متاثرہ ضلع بونیر کو 15کروڑ، ضلع باجوڑ، بٹگرام اور مانسہرہ کو10، 10کروڑ اور سوات کو پانچ کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے اعلامیے کے مطابق تمام متعلقہ اداروں کو سیاحتی مقامات پر بند شاہراوں اور رابطہ سٹرکوں کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے نے تمام سیاحوں کو موسمی صورتحال سے آگاہ کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے ( ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ’’ بادل کا پھٹنا‘‘ کہا جاتا ہے۔
بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ سنہ 2013ء میں انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں ہوا تھا لیکن شدید بارش کے ہر واقعے کو بادل پھٹنا نہیں کہا جا سکتا۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک گھنٹے میں 10سینٹی میٹر کی تیز بارش سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قریب ہی کوئی دریا یا جھیل ہو اور وہ اچانک زیادہ پانی سے بھر جائے تو قریبی رہائشی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوتا ہے
آزاد جموں و کشمیر کی سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے دریائے جہلم اور اس کے معاون ندی نالوں میں اگلے 24گھنٹوں کے دوران شدید سیلابی صورتحال کی پیش گوئی کر دی ہے۔
کے پی کے میں سیلابی پانی کی رفتار اور تباہی کے مناظر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو ہر آفت سے محفوظ رکھے۔





