ColumnImtiaz Aasi

سوشل میڈیا پر جھوٹی اور سننی خیز خبریں

سوشل میڈیا پر جھوٹی اور سننی خیز خبریں
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہم کیسے مسلمان ہیں جھوٹ بولنا گنا نہیں سمجھتے ۔ ہم روزمرہ کے معمولات پر غور کریں تو لمحہ بہ لمحہ ہم جھوٹ سے کام لیتے ہیں اس کے باوجود ہمیں شرمندگی نہیں ہوتی۔ عہد حاضر میں سوشل میڈیا پر جس برق رفتاری سے جھوٹی خبریں پھیلانے کا رواج پا رہا ہے جھوٹ اور سچ کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ترمذی کی روایت ہے جھوٹ بولنے والے بندے کی بدبو سے فرشتہ میلوں دور ہو جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے نبی کریمؐ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے جب کسی سے وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر چھ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ خبر کی تحقیق کر لیا کرو۔ آج سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی بھرمار ہے کوئی جھوٹی خبر نہ بھی دے تو اس کے نام سے منسوب کرکے چلائی جاتی ہے۔ کیا ایسے لوگ مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں؟ بدقسمتی سے ہم قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اسلامی تعلیمات کی بجائے مغربی تعلیم کے رسیا ہیں۔ سوشل میڈیا پر آئے روز یہ معمول بن چکا ہے سابق وزیراعظم عمران خان کو بنی گالا شفٹ کر دیا گیا ہے عمران خان کو رہا کر دیا گیا ہے۔ کبھی خواتین کی تصاویر غیر محروموں کے ساتھ جوڑ کر چلائی جاتی ہیں۔ ایسی حرکات کرنے والوں سے میرا سوال ہے آخر تمہاری مائیں بہنیں بھی ہیں اگر آپ کسی کی ماں بہن کی سوشل میڈیا پر توہین کرو گے تو کل کلاں آپ کو بھی یہی کچھ دیکھنا پڑے گا۔ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اللہ کی مہربانی سے میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم حق بات کہنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ خصوصا سیاسی جماعتوں کے لوگوں میں یہ رواج پا رہا ہے وہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں عار محسوس نہیں کرتے حالانکہ عزت تو سبھی کی ایک جیسی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف کارٹون دکھائے جاتے ہیں ماں بہنوں کی تفریق ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ یو ٹیوب چنیلز پر دیکھ لیں ایسی ایسی سننی خیز خبریں بنا کر پیش کی جاتی ہیں کہ انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے۔ اللہ کے بندوں اس مالک پر یقین رکھو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے جس کسی نے تمہارے چینل کو دیکھنا ہو گا دیکھ لے گا جھوٹ سے تم زیادہ سے زیادہ ویورز بنا کر پیسے کما لو گے مگر اپنی آخرت خراب کر لو گے۔ یو ٹیوب پر تمہیں جو آزادی حاصل ہے اس کا غلط استعمال مت کرو۔ صحافت سے وابستہ ہوئے چار عشروں سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر جو تماشا آج کل لگا ہے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کبھی اخبارات کے خلاف عوام کو شکایت ہوا کرتی تھی فلاں رپورٹر نے کوئی غلط خبر دے دی اب تو سوشل میڈیا کے دور میں کیا داخل ہوئے ہیں کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ فیس بک پر خواتین کی ایسی ایسی تصاویر دیکھ کر انسان سوچوں میں گم ہو جاتا ہے جانے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ہم سب کو ایسی چیزوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور سوشل میڈیا پر سچی خبروں کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ایسی خبروں کو پھیلانے میں سرگرم ہے ہمارے خیال میں اور بھی بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا کے شعبے قائم کر رکھے ہیں جس میں کام کرنے والوں کو سرکاری کھاتے سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ پاکستان شائد ان باتوں کے لئے قائم نہیں ہوا تھا ہم سب نے مل کر ملک کا جو حال کیا ہے اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سیاستدانوں نے غریب عوام کو جھوٹ سے دل بلانے کا وتیرہ پکڑا ہوا ہے عملی طور پر کچھ نہیں۔ اخبارات میں تو ہوتا تھا کوئی خبر غلط لگ جاتی تو اگلے روز اس کی تردید آجاتی لیکن سوشل میڈیا پر تردید کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ میرے مشاہدات کے مطابق اس وقت سوشل میڈیا پر جو بے حیائی کا طوفان برپا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بلاشبہ سوشل میڈیا عوام تک خبروں کی رسائی کا بہت اچھا ذریعہ ہے لیکن اس کا استعمال غلط کرنے سے سوشل میڈیا پر لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ ہم یو ٹیوب کی بات کریں تو خبروں کو توڑ مروڑ کو پیش کیا جاتا ہے جیسے آسمان گرنے والا ہے۔ چند ڈالروں کی خاطر ہم جھوٹ پھیلانے سے گریز نہیں کرتے۔ اگر سوشل میڈیا پر صاف ستھری اور سچی خبریں دی جائیں تو عوام کا سوشل میڈیا پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ فیس بک، ٹیوٹر، انسٹا گرام اور وٹس ایپ پر جھوٹ پھیلانے والوں کو چند لمحات کے لئے سوچنا چاہیے اگر وہ مسلمان ہیں تو کیا ہمارے مذہب میں کسی دوسرے شخص تک جھوٹی خبریں پھیلانے کی اجازت ہے؟ بعض حلقوں نے فحاش تصاویر سے مال پانی بنانے کو روزمرہ کا معمول بنایا ہوا ہے۔ ایک ہی خبر کو مختلف زایوں سے چلانے کا مقصد اپنے ویورز کی تعداد بڑھانے کے سوا کیا مقصد ہو سکتا ہے البتہ یو ٹیوب کا ایک تو فائدہ ہوا ہے جن جن لوگوں کو اخبارات سے فارغ کیا گیا ہے ان کے لئے آمدن کا ایک بہتر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اگر وہ سچی خبروں سے عوام الناس کو آگاہ کریں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کے رزق میں بھی اضافہ کرے گا اور آخرت کی منزل میں آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں جھوٹ بولنے والوں کے بارے میں قرآن و احادیث کا حوالہ دیا ہے اگر ہم سب اس پر شد و مد سے عمل کریں تو دین اور دنیا کی تمام بھلائیاں سمیٹ سکتے ہیں۔ مغربی دنیا پر نظر ڈالیں تو میڈیا سے وابستہ لوگ جھوٹی خبروں کی ترسیل سے اجتناب کرتے ہیں۔ آخر کیوں غیر مسلم ہوتے ہوئے وہ جھوٹ سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دنیا کے کی مذہب میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ آئیے! ہم سب اس بات کا صدق دل سے عہد کریں اخبارات ہوں یا سوشل میڈیا جھوٹی خبروں سے اجتناب کریں گے تاکہ ہم حق تعالیٰ کے روبرو سرخرو ہو سکیں۔

جواب دیں

Back to top button