Column

نو مئی کا سچ : ضمانتوں کے پیچھے چھپتی ناکام سیاست ؟

از : راؤ بلال یوسف
لاہور ، پاکستان

سپریم کورٹ کی راہداریوں سے اٹھنے والی کل کی آہٹ نے ملکی سیاست کی فضا بدل دی۔ 9 مئی کے آٹھ مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ضمانت کا اعلان محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ سیاسی منظرنامے میں ایک نئی لہر کی طرح آیا۔ وکلا کی مسکراہٹیں، سلمان صفدر کا یہ کہنا کہ “آخری دو کیس بھی آج گرنٹ ہو گئے” اور سلمان اکرم راجہ کا اعتماد بھرا جملہ کہ “خان صاحب کے خلاف کچھ بھی نہیں ہے” سب مل کر اس بات کی جھلک دیتے ہیں کہ دفاعی کیمپ اس فیصلے کو بیانیاتی فتح کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ضمانت بریت نہیں، ضمانت کسی بھی مقدمے میں ملزم کا قانونی حق ضرور ہے مگر یہ ٹرائل کی منزل کا فیصلہ نہیں کرتی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بڑی احتیاط کے ساتھ یہ واضح کیا کہ ضمانت کے مرحلے پر کسی قسم کی حتمی رائے دینا مناسب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سازش ہو یا وائس میچنگ کے ثبوت، سب کچھ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی استغاثہ کی بار بار ہونے والی تاخیر اور چالان جمع نہ کرانے کی کمزوریاں نمایاں ہوئیں جن کی طرف عدالت نے بھی اشارہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قانونی ماہرین اور صحافیوں نے اس فیصلے پر محتاط تبصرہ کیا ہے۔ حسن ایوب نے کہا کہ کچھ مقدمات میں تو ضمانت ہونی ہی تھی کیونکہ چالان پیش ہی نہیں ہوا تھا، لہٰذا زیادہ خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں۔
دوسری طرف راولپنڈی اور جی ایچ کیو سے جڑے مقدمات ابھی باقی ہیں۔ صحافیوں کے مطابق وہاں بارہ کیس زیر التوا ہیں اور کچھ میں پوسٹ اریسٹ ضمانت بھی ہو چکی ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں سزا موجود ہے اور اس کے سائے تاحال عمران خان کی سیاست پر چھائے ہیں۔ تجزیہ کار فواد احمد کا کہنا ہے کہ نو مئی کیس میں ضمانت ہوئی ہے، بریت نہیں، اس لیے جیل سے باہر آنے کا فوری امکان اب بھی محدود ہے۔ اسی تناظر میں ثاقب بشیر نے یاد دلایا کہ اگر 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ضمانت ہو بھی گئی تو یہ بھی ممکن ہے کہ نئی فائلیں نکال کر مزید گرفتاری ڈال دی جائے۔ تجزیہ کاروں اور کورٹ رپورٹرز کے ٹویٹس کے بعد ایک بات واضح ہوتی ہے پوری پاکستان تحریک انصاف بیانیہ بنا کر اپنے لوگوں میں امید کی کرن کو زندہ رکھتی ہے۔ دوسری جانب ملک خداد میں موجود دیگر جماعتیں ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کا مقابلہ اس چیز میں کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
استغاثہ کے پاس ریکارڈ میں تیرہ یو ایس بیز کی موجودگی اور فارنزک شہادت کا دعویٰ تو ضرور ہے لیکن یہ سب تب تک محض کاغذی حقیقت ہیں جب تک عدالت میں ان کی چین آف کسٹڈی اور سائنسی سچائی ثابت نہ کی جائے۔ یہیں پر استغاثہ کی اصل آزمائش ہے۔ اگر شہادتیں عدالت کے معیار پر پوری نہ اتریں تو یہ ضمانتیں مزید طاقتور بیانیہ میں بدل جائیں گی اور ریاست کی پوزیشن کمزور ہوگی۔ لیکن اگر استغاثہ مضبوط چالان اور منظم گواہی کے ساتھ عدالت میں کھڑا ہو گیا تو پھر یہی بیانیہ پلٹ کر دفاعی کیمپ پر بوجھ بن سکتا ہے۔
نو مئی کے واقعات ریاست اور سیاست دونوں کے لیے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فوج اور ادارے اسے قومی سلامتی پر حملہ قرار دیتے ہیں جبکہ تحریک انصاف اسے سیاسی انتقام سے تعبیر کرتی ہے۔ یہی دو متوازی بیانیے عدالتی کمروں میں بھی گونجتے ہیں اور ٹی وی اسٹوڈیوز میں بھی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کشمکش میں وقتی ریلیف تو ہے لیکن حتمی حل نہیں۔ عمران خان کے وکلا یہ ضرور کہتے ہیں کہ خان صاحب کے خلاف کچھ بھی نہیں ہے لیکن عدالت نے خود یہ جملہ کئی بار دہرایا کہ ‘’فائنڈنگز ٹرائل کورٹ دے گی”۔ یہی اصل نکتہ ہے کہ ضمانت کی عارضی آزادی اپنی جگہ لیکن حتمی انجام اب بھی قانون کی باریک کسوٹی پر ہی طے ہوگا۔
اس فیصلے کے سیاسی اثرات بھی قابل غور ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑی حوصلہ افزائی ہے، وہ اپنے کارکنان کو یہ پیغام دے سکتی ہے کہ دباؤ کے باوجود عدلیہ نے انصاف کیا۔ دوسری طرف حکومت اور اس کے حلیف اسے اس طور پیش کریں گے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور نظام اپنے دائرے میں چل رہا ہے۔
سیاسی مستقبل کے امکانات کئی سمتوں میں کھلتے ہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ ضمانتوں کا سلسلہ پھیل جائے، کچھ مقدمات میں بریت یا ڈسچارج بھی ہو جائے اور سیاست بتدریج معمول کی طرف لوٹنے لگے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ ایک دروازہ کھلے اور دوسرا بند ہو، کہیں ضمانت ملے اور کہیں نئی گرفتاری ڈال دی جائے تاکہ دباؤ برقرار رہے۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ استغاثہ چالان اور شہادتوں کو مضبوط بنا کر کنوکشن لے آئے اور دفاعی کیمپ پھر سے دباؤ میں آ جائے۔ اور چوتھا امکان یہ بھی ہے کہ تمام فریق اس طویل کشمکش سے تنگ آ کر کسی نہ کسی سیاسی مکالمے یا ضابطہ اخلاق کی طرف آئیں جہاں تشدد سے لاتعلقی اور پارلیمانی عمل میں واپسی کی بنیاد پر کوئی نیا راستہ نکلے۔اصل سوال یہی ہے کہ یہ ضمانت محض عارضی ریلیف ہے یا مستقبل کی سیاست کا نیا موڑ۔ ی
آج کی خبر یہ ہے کہ عمران خان کو 9 مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانت مل گئی۔ کل کی خبر یہ ہوگی کہ استغاثہ عدالت میں کس حد تک ثبوت کے ساتھ پہنچتا ہے۔ اور سب سے اہم خبر وہ ہوگی جو شاید کبھی بریکنگ نہ بنے: کہ قانون نے کیسا انصاف دیا، کیا یہ انصاف وقت پر ملا یا تاخیر کی گرد میں دب گیا۔ جب تک ان سوالوں کے جواب نہیں آتے نو مئی کا بیانیہ زمین بوس ہے یا زمین گیر، اس کا فیصلہ عدالت کے ریکارڈ کرے گا، نہ کہ سیاست کے نعروں یا میڈیا کی سرخیوں میں۔

جواب دیں

Back to top button