انصاف پسند اور سخی ’’ سردار

انصاف پسند اور سخی ’’ سردار‘‘
کالم نگار :امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
ایک دن دوستوں کی محفل میں میرے ایک پڑھے لکھے دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ سرداروں، وڈیروں، نوابوں کو کیسے دیکھتے ہیں ؟، آپ کا نقطہ نظر ان کے بارے میں کیا ہے؟۔ میں نے جواب دیا دیکھیں بھائی، اگر کسی علاقے کا نواب، سردار، چیف، تمندار، انصاف پسند، سخی۔ صاف گو اور رحم دل ہو تو وہ اُس علاقے اور وہاں کے لوگوں کیلئے رحمت بن جاتا ہے۔ اگر وہی سردار، نواب اگر ظالم، جابر نکلے تو وہ اُس علاقے کے لیے وہاں کے لوگوں کیلئے زحمت بن جاتا ہے۔ پھر اُس کے شر سے کوئی محفوظ نہیں رہتا۔
میں نے مزید اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے سردار اور نواب کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کو جو اپنی سخاوت، انصاف پسندی، دلیرانہ فیصلوں اور رحمدلی کی وجہ سے لوگوں کے دِلوں میں بستے ہیں، جب وہ عوامی نمائندہ بنے اقتدار میں تھے تو وہ اپنے مظلوم لوگوں کے حق میں ایسا بولے کہ ایوان کے درو دیوار ہلا دئیے۔ اُس مردِ مجاہد، مردِ قلندر کا نام سردار ریاض محمود خان مزاری ہے، جن کا تعلق راجن پور روجھان مزاری سے ہے۔ سردار ریاض محمود خان مزاری سردار میر بلخ شیر خان مزاری کے فرزند ہیں۔ سردار میر بلخ شیر مزاری ( مرحوم) پاکستان کی سیاست میں وہ واحد سیاستدان گزرے ہیں جو’’ مسٹر کلین‘‘ کے نام سے مشہور تھے، جنہوں نے ساری زندگی انصاف اور شرافت کی سیاست کی ہے۔ اُن کی سیاسی کیرئیر میں کبھی اُن پر کوئی کرپشن کا داغ نہیں لگا۔ سردار میر بلخ شیر خان مزاری پاکستان کے واحد سیاستدان تھے جنہوں نے دیگر ممالک سے ملے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے تھے۔ ایک تحفہ بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح گھر نہیں لے گئے۔ ان کی انہیں روایت کو ان کے صاحبزادے سردار ریاض محمود خان مزاری بھی خوب نبھا رہے ہیں۔ ان کی سیاست میں انٹری 1979ء میں ہوئی جب ڈسٹرکٹ کونسل کا الیکشن لڑا اور جیتے اُس کے بعد 1985ء میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور ایم پی اے منتخب ہوئے۔2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔ جب اقتدار میں تھے اُن کے حلقے روجھان مزاری میں امن اور نہری پانی فراہمی کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ پنجاب میں روجھان سے ملحقہ کچے کا علاقہ اُن کے حلقے میں آتا تھا انہوں نے ہر فورم پر کچے کے ڈاکوئوں کیخلاف آواز بلند کی۔ کچہ میں موجود مظلوموں کی جن میں بلوچ نان بلوچ افراد شامل تھے ان پر ہونے والے مظالم کو مقتدر شخصیات اور حلقوں کے سامنے رکھا۔ میرے خیال میں کچے کے ڈاکوئوں کیخلاف کسی عوامی نمائندے نے سب سے زیادہ آواز بلند کی تو وہ سردار ریاض محمود خان مزاری تھے۔
اپنے علاقے کے لوگوں میں انصاف پسندی میں اتنے مشہور ہیں کہ اُن کے سیاسی حریف بھی اُن کی انصاف پسندی پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی فیصلے اٹل ہوتے اور سو فیصد میرٹ پر ہوتے ہیں، سردار ریاض محمود خان مزاری کی سرپرستی ہونے والے جرگوں میں کئی خاندانی، قبائلی دشمنیاں ختم ہوئیں، کئی قتل کے فیصلے ہوئے۔ اُن کی سرپرستی میں 2قبیلوں کے درمیان 26افراد کے قتل کا فیصلہ بھی حق انصاف پر ہوا۔ جی ہاں! صحیح پڑھا 26 افراد کے قتل کا فیصلہ بھی سردار ریاض محمود خان مزاری کی سرپرستی میں سرانجام پایا۔ آج آپ عدالتی نظام کو دیکھ لیں جہاں ایک ایک قتل یا دیگر مقدمے کے فیصلوں میں عرصے بیت جاتے ہیں اور اُن میں بھی اکثر خامیاں رہتی ہیں ۔ان کے حق انصاف پر کئے گئے فیصلوں کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں پر مشتمل ہو گی۔
اسی طرح میں نے اُن کو انصاف پسندی کے ساتھ ہمیشہ سخی پرور پایا، آپ اُن کے ڈیرے پر چلے جائیں وہاں آپ کو لنگر کا روزانہ کی بنیاد پر وسیع انتظام ملے گا۔ وہاں کے مقامی رہائشی بچے، بوڑھے وہ لنگر، کھانے خود بھی کھاتے ہیں اپنے گھروں کو بھی لے جاتے ہیں ۔ غریب غرباء ، یتیم، مساکین، بیوائوں کو مہینہ وار پیسے اور راشن کا بندوبست اُن کے ہاتھ سے عرصے دراز سے ہو رہا ہے جو کہ جاری و ساری ہے۔ تعلیم کے شعبے میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ ان کے اخراجات پر یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ آج بھی ان کے ڈیرے پر آپ کو طالب علم ملیں گے جن کی قیام و طعام کا بہترین بندوبست دیکھنے کو ملے گا۔
سردار ریاض محمود خان مزاری کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو وہ اپنی صاف گوئی اور عوامی کمٹمنٹ میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ روایتی سیاستدانوں کی طرح اپنے ووٹرز سپوٹرز کو دھوکے میں بالکل نہیں رکھتے جو کام ہونے کا ہوتا ہے فی الفور کرتے ہیں اگر ممکن نہیں تو لوگوں کو ڈیرے کے چکر نہیں لگواتے۔ بطور ایم این اے انہوں نے اپنے حلقے کی تعمیر و ترقی میں جتنا ممکن ہو سکا کام کرایا۔ روجھان مزاری میں سوئی گیس لانے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے اسی طرح اپنے حلقے میں بجلی کے اتنے منصوبے دئیے جو گزشتہ ستر سال کبھی ممکن نہ ہوئے۔
اللہ پاک نے اُن کو وسیع علم بھی عطا کیا ہے چند دن پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو ایک حضرت صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے انسانیت کے موضوع پر بہترین گفتگو کی، فرمایا کہ اسلام میں شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ انسانیت بہت بڑی چیز ہے، انسانیت کے وجود کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو انسانیت کے مفہوم مقام و مرتبہ کے بارے میں قرآن کریم کے اندر واضح طور پر آیات موجود ہیں جس کا مقصد ہر دور میں انسانیت کے مفہوم کو عام کرنا اور معاشرہ میں انسانیت کے کردار کو سامنے لانا ہے ،عصر حاضر میں ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، انسان انسان کا دشمن بنا ہوا ہے ، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، آج دنیا میں انسانیت کو بالا طاق رکھ کے جو ظلم اور فتنہ و فساد پھیل رہا ہے، انسانیت بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے، لہذا آج انسانیت کے مفہوم کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انسانیت سے مراد وہ بنیادی خصوصیات اور اقدار ہیں جو انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتی ہیں ان میں ہمدردی، محبت احترام اور دوسروں کی مدد کا جذبہ شامل ہے۔ اس میں بلا تفریق مذہب، رنگ نسل اور قومیت کے ہر انسان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا شامل ہے ۔
یقین جانیے! ایسے سخی،رحم دل اور انصاف پسند سردار اپنے علاقے، اپنے لوگوں کے لیے رحمت ہوتے ہیں۔ ان کی عزت و تکریم کرنا ہمارا فرض ہے۔
سردار ریاض محمود خان مزاری آج اپوزیشن میں ہونے کے باوجود لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کے مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اُن کی جن چند صفات کا میں نے اوپر زکر کیا وہ یہ سب فوٹو سیشن اور تشریح کے بغیر کرتے ہیں، یہ بھی اُن کی بہت بڑی خوبی ہے۔ وگرنہ آج کل تو کسی مستحق کو آٹے کا ایک تھیلا دینے کے موقع پر سینکڑوں فوٹو سیشن ہوتے ہیں اور اشتہارات چلائے جاتے ہیں ۔
یقین جانیں جو شخص بیوائوں، یتیموں، مسکینوں ، مسافروں اور کسی بھی طرح کے مستحقین کی خدمت میں پیش پیش رہتا ہے اور ان کے کام آکر اسے دلی خوشی اور قلبی اطمینان محسوس ہوتا ہے، ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کا قرب ِ خاص حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنا محبوب بنا لیتے ہیں، چنانچہ حضرت ِ انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ؐ نے ارشاد فرمایا: مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، لہٰذا اللہ کے نزدیک ساری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے سے محبت فرماتے ہیں، اس کے بارے میں حضرت جبرائیلٌ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ زمین میں اعلان کرو کہ میں اس بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو تو لوگوں کے دِلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آدمیت کی بے لوث خدمت کرنے والا لوگوں کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے، کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں اور اسے معاشرے میں باوقار، بلند ہمت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔





