قدرتی آفات، سیلاب اور ہماری بے حسی

قدرتی آفات، سیلاب اور ہماری بے حسی
عابد ہاشمی
بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ بمطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) رپورٹ ، بارشوں اور سیلاب سے26 جون سے 19اگست تک 707افراد جاں بحق اور 967زخمی ہوئے، خیبر پختونخوا میں427افراد جاں بحق اور 270زخمی ہوئے جن میں سے پنجاب میں 165افراد جاں بحق اور 584زخمی ہوئے، سندھ میں 29افراد جاں بحق اور 40زخمی ہوئے، بلوچستان میں 22افراد جاں بحق اور 5زخمی ہوئے، گلگت بلتستان میں 34افراد جاں بحق اور 37زخمی ہوئے۔ جبکہ آزاد کشمیر میں 22افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہوئے ، اسلام آباد میں 8افراد جاں بحق اور 3زخمی ہوئے۔
ہم حکومت اور دوسرے اداروں پر تنقید کر کے اپنا حق ادا کر رہے، کچھ فلاحی تنظیمیں، ادارے، مخیر حضرات اپنی ساری توانائی لگا کر متاثرین کی مدد کر رہے۔ یہ حکومت یا کسی کے بس کی بات نہیں، یہ آزمائش کی گھڑی ہے۔ آزمائشیں اللہ کی طرف سے انسانوں کے اعمال کا نتیجہ میں ہوا کرتی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا احتساب کرنا ہوگا۔
کرونا ہو یا سیلاب کی آزمائش، غیر مسلم قیمتیں کم، ہم حسب معمول ذخیرہ اندوزی، خود ساختہ مہنگائی، مجبوری میں عزت نفس مجروح، ویڈیو بنا کر کمائی کا موسم بنائیں گے تو یہ مصبیتں تو کم نہیں ہوں گی۔
پاکستان میں ریاستی تاریخ کے ان انتہائی غیر معمولی سیلابوں کے نتیجے میں غیر معمولی تباہ کاریاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ تباہ کن سیلاب اس سے قبل بھی آتے رہے ہیں، پیلا دریا (2297قبل مسیح میں) اور نیل (3000سال پہلے) لیکن گزشتہ صدی میں، ان کی تعداد اور نقصان کا سائز آسمان پر پہنچ گیا۔ آبادی میں اضافہ، جنگلات کی کٹائی اور انسانی سرگرمیوں کی نوعیت کے دیگر نقصان کے ساتھ، سیلاب زیادہ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
1، یورپ میں سیلاب: 1953ء میں جرمنی، برطانیہ اور نیدرلینڈز میں مضبوط طوفان آیا، زیادہ علاقے کا 8فیصد بھر گیا تھا، تقریبا 2000افراد ہلاک ہوئے۔
2،گنگا ڈیلٹا میں سیلاب: یہ 1970ء میں ہوا، 10میٹر کی لہر دریا پر چھا گئی، سیکڑوں دیہات اور قصبوں تباہ، درجنوں ہلاک ہوئے، جبکہ سیکڑوں، ہزاروں لوگ بھوک، ٹائیفائیڈ اور ہیضے کی وبا سے مر گئے تھے۔
3، آمور سیلاب: جولائی 2013ء میں روسی فیڈریشن کی سرزمین پر ہوا، کل نقصان 3ارب rublesسے تجاوز کر گیا۔ یہ 29پلوں کو تباہ کر گیا، تقریبا 300کلومیٹر سڑکوں، زراعت کو نقصان پہنچا۔
پاکستان میں ماضی میں 1956،1976،1986اور 1992میں بڑے سیلاب آئے تھے۔ ان سیلابوں کے دوران بھی دریائے سندھ میں پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کالا باغ کے مقام پر آٹھ لاکھ 62ہزار اور چشمہ کی مقام پر سات لاکھ 86600کیوسک سے نہیں بڑھ پائی تھی۔ اس سال کالا باغ کے مقام پر پانی کا بہائو نولاکھ کیوسک اور چشمہ پر دس لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گیا۔2010کے سیلاب میں ملک کے 78جبکہ 2022میں 116اضلاع متاثر ہوئے ہیں لیکن 2010 میں دو کروڑ کی آبادی جبکہ 2022میں اب تک 31لاکھ سے زائد کی آبادی متاثر ہوئی ہے جس میں 2لاکھ 26 ہزار صرف سندھ میں متاثر ہوئے۔ مسلسل ہونے والی بارشوں سے لاکھوں مکانات متاثر ہوئے جس وجہ سے لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ 2010میں بھی محکمہ موسمیات اور این ڈی ایم کا کہنا تھا کہ معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال بنی لیکن بعد ازاں بتایا گیا کہ کلائوڈ برسٹ کی وجہ سے دریائوں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوئی اور پانی تمام تر حفاظتی بند اور پشتوں سے بلند ہو کر دیہاتوں اور شہروں میں داخل ہو گیا۔ اس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصانات بھی ہوئے جس کا تخمینہ 10ارب ڈالر سے بھی زائد لگایا گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 2010کا سیلاب ’ دریائی سیلاب‘ تھا جبکہ رواں مون سون میں آنے والے سیلاب کو ’ فلیش فلڈ‘ کہا جاتا ہے۔ بارشیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے اس شدت سے آئے کہ مکانات، مویشیوں اور انسانوں کو بہا کر لے گئے ہیں۔
سیلاب کی وجوہات اور اقسام
1۔ برف پگھلنا۔
2۔ سونامی لہریں۔
3۔ طویل بارشیں ۔
سیلاب سے بچائو:
1۔ تلاش اور ریسکیو: سیلاب زدہ علاقے میں پھنسے لوگوں کی جتنی جلدی ممکن ہو مدد اور ان کی بقا یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔ سیلاب کے ساتھ ساتھ سرچ اینڈ ریسکیو اہلکاروں کا ریسکیو آپریشن کرنا۔ یہ وہی جانتے ہیں جنہوں نے شہری دفاع کی ابتدائی اور منظم طریقے سے تربیت لی ہو۔
2۔ آفت کو ریپڈ رسپانس کے alertingاور ضروری افرادی قوت اور وسائل فراہم کرنا۔
3۔ آپریشنل انٹیلی جنس کنٹرول سسٹمز کی تعیناتی کی تنظیم۔
4۔ آبادی اور معاشی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے امدادی طیاروں کو استعمال کرنا چاہئے۔
لیکن جب ہم سو روپے کی چیز ہزار میں دیں گے تو یہ آزمائشیں کبھی نہیں ٹلنے والی۔





