بارش میں سیاسی بیانات

بارش میں سیاسی بیانات
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
قسم سے اُس بھاری ڈمپر کا بوجھ کوئی کم کرنے کیلئے تیار نہیں، اسی لیے تو ڈمپر کئی سال سے اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھ رہا، نہ اس کے حقیقی مالکان، عوام کو راحت ملی ہے ۔ ہمارے ہاں لوگو دہائیوں سے وعدوں، دعوئوں اور نعروں کا بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں مگر آگے بڑھنے کے بجائے وہیں جمود کا شکار ہیں۔ یہ قوم زندہ دل بھی ہے، محبِ وطن بھی، قربانی دینے والی بھی، لیکن ہر بار انہی سیاسی جماعتوں کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کر لیتی ہے۔ بارڈر پر شہید جوانوں کو ملنے والے بجٹ پر تنقیدی سوالات آخر کیوں، بوڑھی ماں، معصوم بچہ بارش کے پانی میں ڈوبے، کچے مکان میں سسک سسک کر مر جانے پر بات والا دشمن ٹھرا دیا جاتا ہے۔ ہماری ملکی سیاست دو جماعتوں کے گرد گھومتی آئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا راج ہے۔ اس کا قیام 1967ء میں ہوا اور آج اسے 58برس ہو چکے ہیں۔ وفاق میں سولہ برس اور سندھ میں 28برس حکومت کرنے کے بعد بھی عوام آج تک بارش سے مر رہے ہیں، پینے کا صاف پانی ڈھونڈتے ہیں۔ کراچی جسے ملک کا معاشی حب کہا جاتا ہے، جہاں سے تقریباً 70فیصد ٹیکس جمع ہوتا ہے، بارش کی بوندوں سے ڈوب جاتا ہے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کہاں گئے ؟ بجٹ کس کھائی میں اتر گیا ؟ یہ سوال ہر بار پوچھا جاتا ہے اور ہر بار ایک نیا وعدہ، ایک نئی قسم، اور ایک نیا بہانہ بیانہ عوام کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ( ن) پر، جسے 1988ء میں وجود میں آئے بھی سینتیس برس ہو چکے ہیں۔ وفاق میں بارہ برس اور پنجاب میں پندرہ برس سے زیادہ حکومت کرنے کے باوجود پنجاب کے دیہاتوں کی گلیاں آج بھی گندگی اور غربت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ وہی صوبہ ہے جس کا نعرہ ’’ خوشحالی‘‘ تھا، لیکن عملاً غربت کی شرح آج بھی 30فیصد سے زیادہ ہے۔ لاہور کو پکی سڑکیں، میٹرو اور اورنج ٹرین ملی لیکن جنوبی پنجاب کے باسی آج بھی علاج کے لیے سیکڑوں میل دور بڑے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ مساوات ہے جو ہمیشہ صرف تقریروں میں نظر آئی، حقیقت میں نہیں۔
ان دونوں جماعتوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں بار بار اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔ مگر عوام آج بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت، گندگی، بے روزگاری اور دہشتگردی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سیلاب آتا ہے تو حکومت ڈوبتے عوام کو تسبیح پڑھنے پر لگا دیتی ہے، دہشتگردی ہوتی ہے تو حکمران اسے ’’ بیرونی سازش‘‘ قرار دے کر جان چھڑاتے ہیں ۔ ہزاروں جوانوں نے شہادت دی ہیں لیکن کچھ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ ملک کی 24کروڑ آبادی میں سے تقریباً ساڑھے 8کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے ایوانوں میں آج بھی شادیاں، تقریبات اور محافل رقص کی رونقیں کم نہیں ہوتیں۔
کراچی کی حالیہ بارش نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جو عوامی خدمت کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہے؟ سندھ حکومت اسے میڈیا کی سازش قرار دیتی ہے، لیکن کیا میڈیا نے شہر کی گلیوں کو ندی نالوں میں بدلا؟ کیا میڈیا نے نکاسی آب کے منصوبے کھا لیے؟ اور کیا میڈیا نے اربوں روپے کرپشن کی نذر کر دئیے؟ سچ یہ ہے کہ عوام کو بہلانے کے لیے ہر بار ایک نیا جواز پیش کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت وہی ڈمپر ہے جو چلتا تو ہے مگر آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کے ذمہ داروں تعین کون کرے گا، یہ کس کا کام ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ ذمہ داری کس پر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ اور 26ویں عدد آئینی ترمیم کے بعد ملک کے چاروں صوبے اپنے وسائل اور اپنے عوام کو جواب دہ ہیں۔ کب تک یہ قوم وعدوں اور قسموں کے سحر میں جکڑی رہے گی؟ کب تک یہ تماشہ جاری رہے گا کہ حکمران محلوں میں عیش کریں اور عوام بارش کے پانی میں تیرتے رہیں؟ کب تک عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہے گا ؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر یہ ڈمپر کب آگے بڑھے گا ؟۔





