ColumnRoshan Lal

کراچی، بارش اور میڈیا پرسنز

کراچی، بارش اور میڈیا پرسنز
روشن لعل
کراچی میں 19اگست 2025ء کو ہونے والی غیر معمولی بارش اب بھی تقریباً ہر بڑے چھوٹے میڈیا ہائوس کے اینکر پرسنز کے خصوصی تبصروں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ کراچی کی حالیہ بارش کے دوران وہاں کا کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں تھا جس کی سڑکیں ، گلیاں اور چوراہے، نہروں اور تالابوں کا منظر پیش منظر پیش نہ کر رہے ہوں ۔ صرف پسماندہ نشیبی علاقے ہی نہیں کئی پوش سمجھے جانے والے علاقوں کے گھر بھی بارش کے پانی میں ڈوبے ہوئے نظر آئے۔ شہر کی اہم سڑکوں پر لوگوں کی گاڑیاں کاغذ کی کشتیوں کی طرح تیرتی ہوئی دکھائی دیتی رہیں۔ جو میڈیا پرسنز اس روز آفت زدہ کراچی کی میڈیا پر منظر کشی کر رہے تھے ان کے لب و لہجہ سے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ بارش کے متاثرین کو تسلی دینے کی بجائے ان کے جذبات برانگیختہ کر کے کچھ اور ہی برآمد کرنا چاہتے ہیں۔
جب پاکستان کا معاشی مرکز کراچی بارش میں ڈوبا ہوا تھا عین اسی وقت شدید بار ش نے بھارت کے اکنامک کیپیٹل ممبئی کی حالت اور وہاں لوگوں کی زندگی کو کراچی کیباسیوں کی زندگیوں سے بھی بد تر بنا رکھا تھا۔ بھارت اور پاکستان کو تو انیس بیس کے فرق کے ساتھ تقریباً ایک طرح کے پسماندہ ملک سمجھا جا سکتا ہے لیکن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی ریاست ’ وسکانسن ‘ میں جب 10تا 12اگست کے دوران معمول سے زیادہ بارش برسی تو وہاں کے اکثر علاقوں کی صورتحال بھی کراچی اور ممبئی کی حالیہ بارشوں کے دوران پیدا ہونے والے حالات سے مختلف نہیں تھی۔ انٹرنیشنل میڈیا پر دکھائے گئے مناظر میں امریکی رہاست وسکانسن کی سڑکوں پر بھی کئی کئی فٹ بارش کا پانی بہتا ہوا نظر آیا ، اس پانی میں گاڑیاں بھی اسی طرح پھنسی ہوئی تھیں جس طرح کراچی اور ممبئی میں نظر آئیں۔ امریکی ریاست وسکانسن کے مختلف علاقوں میں 6سے 10انچ ( 150تا250ملی میٹر) تک برسنے والی غیر معمولی بارش اور ممبئی کی بارش کے بعد وہاں کا میڈیا مشکلات کا شکار لوگوں کو یہ بتا رہا تھا کہ ریاستی ادارے ان کی مشکلات حل کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں اور بارش کے پانی میں پھنسے لوگوں کو کس قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئیں، مگر اس کے برعکس ہمارے اکثر میڈیا پرسنز کراچی کے آفت زدہ لوگوں کو تسلی دینے کی بجائے حسب سابق اس طرح مشتعل کرنے کی کوششیں کرتے نظر آئے جس طرح ماضی میں ہر قدرتی آفت کے بعد کرتے رہے۔
کراچی میں رواں مون سون کی ریکارڈ بارش ( میئر کراچی کے مطابق175ملی میٹر تا235ملی میٹر) کے دوران میڈیا پرسنز کا رویہ سندھ حکومت اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے لیے اسی طرح بے رحم نظر آیا جس طرح 2010ء کے سیلاب کے بعد صدر زرداری کے لیے سفاکانہ تھا۔ کراچی میں 19اگست کو ایک دن میں تقریباً اتنی ہی بارش برسی جتنی بارش امریکی ریاست وسکانسن میں 10سے 12اگست کے دوران ہوئی تھی ۔ دونوں مقامات پر ایک جیسی صورتحال کے حوالے سے اگر کوئی فرق نظر آیا تو وہ میڈیا پرسنز کے رویے کا تھا ، ویسے تو ملک کے کسی بھی علاقے میں کوئی قدرتی آفت رونما ہونے پر ہمارے میڈیا پرسنز کا رویہ بہت کم تسلی بخش اور شائستہ نظر نہیں آتا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب معاملہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور سندھ میں نازل ہونے والی کسی قدرتی آفت کا ہو تو میڈیا کے اکثر مبصروں کی ناشائستگی میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک مثال نجی ٹی وی پر مارننگ شو کرنے والے عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ کی دی جارہی ہے۔ ان دونوں اینکر پرسنز نے 20اگست کو اپنا پروگرام شروع کرنے کے بعد تقریباً لگاتار 25منٹ تک کراچی میں ہونے والی بارش پر ایسا تبصرہ کیا جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ ان کے بے سروپا تبصرے کے دوران ایک مختصر سا توقف مریم نواز کے دورہ جاپان کی خبر چلانے کے لیے کیا گیا ۔ اس کے بعد سے ان کے ٹی وی چینل کے تقریباً ہر پروگرام میں کراچی کی بارش پر تبصروں کا سلسلہ 21 جولائی کی دوپہر تک ہنوز جاری ہے۔ یاد رہے کہ 16جولائی 2025کو لاہور کے مختلف علاقوں میں تقریباً 60ملی میٹر سے 171ملی میٹر تک بارش برسی تھی، گو کہ اس روز لاہور میں کراچی کی 19اگست کی بارش کی نسبت کم بارش ہوئی تھی لیکن پنجاب کے دارالحکومت میں بھی سڑکوں اور گلیوں نے نہروں کا منظر پیش کیا تھا، سڑکوں پر کھڑے پانی میں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی بند ہوئی تھیں اور مختلف آبادیوں میں لوگوں کے گھروں میں پانی بھی داخل ہوا تھا۔ ہاں لاہور میں یہ ضرور ہوا تھا کہ وہاں بارش کے پانی کا نکاس کراچی کی نسبت جلد ہو گیا تھا کیونکہ لاہور کی قدرتی ڈھلوان ایک کلومیٹر میں ایک سے ڈیڑھ فٹ جبکہ کراچی میں ایک کلومیٹر میں ایک انچ سے بھی کم ہے۔ نکاسی آب کے لیے اہم فیکٹر قدرتی ڈھلوان کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ اینکر پرسن جو لاہور میں غیر معمولی بارش سے پیدا ہونے والی لوگوں کی مشکلات پر سرسری تبصرہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں وہ کراچی میں ہونے والی غیر معمولی بارش کے بعد کئی گھنٹوں تک لایعنی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ مذکورہ اینکر پرسن کراچی کی حالیہ بارش پر جو تبصرے کر رہے ہیں وہ اس لیے لایعنی ہیں کیونکہ جب میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ کہہ دیا کہ کراچی کے نکاسی آب کی نظام کی استعداد 40ملی میٹر بارش کے پانی کے نکاس تک ہے تو اس کے بعد کسی سیاسی تبصرے کی بجائے صرف یہ گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ میئر کراچی کے بیان کا تکنیکی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ اگر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا بیان درست ہے تو پھر بھی ان پر اس صورت میں تنقید کی جاسکتی ہے ، اگر کراچی میں نکاسی آب کے موجودہ نظام کی تعمیر ان کی میئر شپ یا پھر پیپلز پارٹی کی 2009ء سے اب تک چلی آرہی حکومتوں کے دوران ہوئی ہو۔ اگر مرتضیٰ وہاب نے کراچی کے نکاسی آب کی استعداد کے متعلق غلط بیانی کی ہے یا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ضرورت سے کم گنجائش رکھنے والا نکاسی آب کا نظام تعمیر ہوا ہے تو پھر صرف مرتضیٰ وہاب ہی نہیں ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور حتٰی کہ بلاول بھٹو زرداری تک کو بے رحم تنقید کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر کراچی میں ضرورت سے کم استعداد رکھنے والا نکاسی آب کا نظام تعمیر کرنے والے لوگ کوئی اور ہیں تو پھر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ میڈیا پرسنز کی مرتضیٰ وہاب اور موجودہ سندھ حکومت پر تنقید کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ مرتضیٰ وہاب کے کراچی میں نکاسی آب کی گنجائش کے متعلق دیئے گئے بیان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا ہاوسز فضول زبانی جمع خرچ میں الجھنے کی بجائے اپنے رپورٹروں کو ان کے بیان کے درست یا غلط ہونے کی کھوج کرنے میں لگا دیتے تاکہ عوام کے سامنے حقائق پیش کیے جا سکیں مگر جو لوگ عوام کو جاہل رکھنے کے ساتھ خود بھی گمراہ رہنا چاہتے ہیں ان کی ترجیح نہ کبھی ماضی میں غیر جانبدارانہ تحقیق رہی اور نہ اب ہے۔

جواب دیں

Back to top button