Abdul Hanan Raja.Column

ایک اور اگست

ایک اور اگست
عبدالحنان راجہ
اگست کا مہینہ اس بار پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آیا کہ شہید میجر طلحہ کی یادیں اور شہید کے مقدس خون کی خوشبو ابھی تک قلب و جگر میں گلاب کے سرخ پھولوں کی تازہ ہی تھی کہ ایک اور دکھ اگست کے مہینے کا منتظر تھا کہ جس نے حسین یادوں کے طویل سفر کا اختتام کر دیا۔ 14اگست 1947ء کے شہدا کی قربانیاں بھی نہیں بھولیں کہ انہیں کی وجہ سے آج ہم اس مملکت خداداد میں قدرت کی بے پناہ عنایات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وگرنہ رہنے کو تو مسلمانان ہند بھی کرب، ذلت، شکوک اور خوف کے ماحول میں رہ ہی رہے ہیں۔
یہ درست کہ زندگی خوشیوں اور غموں کے امتزاج کا نام مگر موت کا غم ان سب سے بڑا کہ جس کے زخم مندل ہوتے ہوتے بسا اوقات انسان خود بھی ماضی اور اپنوں کی دعائوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ تین عشروں پرمحیط رفاقت کا ختم ہونا جسم، قلب اور روح پر اپنے اثرات تو بہر حال چھوڑتا ہی ہے۔ کہ اب معلوم پڑتا ہے کہ ذمہ داریوں کا بھاری بھرکم بوجھ کس طرح وہ از خود ہی اپنے سر اٹھائے ہوئے تھیں۔ اور پھر ایسی رفاقت کہ جس کا خمیر نسبت رسول، تعلیم اور تعلم سے جڑا ہو باعث فخر و انبساط۔ زندگی تعلیم دین اور اصلاح خواتین کے لیے وقف تھی کہ اس کے اثرات و برکات انکے دنیا سے جانے کے بعد اب ظاہر ہو رہے ہیں۔ بیسیوں ہم نشین ضیائے الامت، سیکڑوں طالبات اور رفقائے درس و تدریس کی جانب سے ہر روز ان کی بخشش و مغفرت کے تازہ گلدستے بارگاہ ایزدی میں پیش ہوتے ہیں تو ان کی روح مسرور ہوتی ہے تو انکی خدمت دین کے جذبہ پر رشک بھی آتا ہے اور ایک خواہش بھی مطالطم کہ خود کو دنیا کے بے جا بکھیڑوں سے کچھ آزاد کر کے اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ کا مسافر بنایا جائے کہ ہیں تو ویسے بھی ہم مسافر، مگر یہ حق ہے کہ اپنی راہ کے مسافروں کو وہ تنہا نہیں چھوڑتے اور فنا بھی نہیں ہونے دیتے۔
بقول اقبال
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
اہل ایمان کی معیت، سنگت اور رفاقت نصیب رہے تو زندگی ہر لطف، پر کیف اور مسرور، وگرنہ دنیا کی لالچ اور ہوس تو ہمہ وقت بے چین، مضطرب، بے جا دوڑ میں مصروف اور رشتوں ناطوں سے بے نیاز کئے رکھتی ہے۔ اگر ساتھ اہل علم، اہل حکمت اور اہل درد کا ہو تو ایسی سنگت بعد از مرگ بھی نہیں ٹوٹتی، ایسے باوفا دنیا میں ساتھ نبھاتے ہیں تو قبر میں بھی ساتھ نہیں چھوڑتے کہ حقیقی وفاداری اور سچی دوستی کا تقاضا یہی ہے۔ اللہ سے دین اور خیر پر استقامت کی دعا ہے کہ اسی کا فضل و کرم ہی سہارا وگرنہ بے سہارا کرنے کو تو اعدا بہت۔
اگست کے مہینے نے اس بار ایک اور بھی قہر ڈھایا کہ کے پی کشمیر اور پنجاب کے بعض علاقوں میں غیر متوقع بارشیں اور سیلابی صورتحال، کہ آنا فانا سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے ایسی تباہی کہ جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر انسان ایک حد تک ہی آفات کا مقابلہ کر سکتا ہے اس سے آگے تو پھر بے بسی اور لاچاری ہی۔ تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر کی دعا۔ مگر ان کا غم اتنا بڑا ہے کہ لفظی ڈھارس محض رسم ہی لگتی ہے۔ اللہ پاک ان کو حوصلہ عطا فرمائے تو ہی ان کی زندگی دوبارہ رواں ہو سکتی ہے، وگرنہ جن کے خاندان کے خاندان دنیا سے چلے گئے اور چھت بھی بہہ گئی ان کے لیے زندگی کا لطف ہی اب کیا رہ گیا کہ اب کھونے کے لیے ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ سیلاب سے نقصانات کا کچھ اہتمام تو حضرت انساں بھی اپنے طبعی میلان لالچ اور ہوس سے کر ہی رہا ہے۔ پانی کے بہائو کے راستوں کو روکنا ان پر کمرشل و رہائشی تعمیرات خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف۔ جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق 1992ء سے لیکر 2025ء تک پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 18فی صد کم ہوا جو انتہائی خطرناک صورتحال کہ 24سے پچیس فی صد رقبہ پر درختوں کی موجودگی کی بجائے بچے کچھے درختوں کو کاٹ کاٹ کر ترقی کی دوڑ میں شریک ہونے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تو سبھی کو معلوم کہ جنگلات نہ صرف زمین کے کٹائو کو روکتے ہیں بلکہ زیر زمین پانی ری چارج اور زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں۔ اب و ہوا کا توازن برقرار اور درجہ حرارت کم رکھنے میں بھی درختوں کا کردار ہے۔ ماہرین کے مطابق درختوں سے عاری پہاڑ جنگلی پہاڑی سلسلوں کے مقابلے میں 6سے 8ڈگری گرم ہو کر عدم توازن پیدا کرتے ہیں جو کلائوڈ برسٹ کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ صنعتی ترقی کے نام پر قدرتی توازن کو پامال جنگلات کی بے دریغ کٹائی، پانی کے بہائو کو ذاتی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کی کوشش اور ماحولیاتی آلودگی، یہ تمام عوامل مل کر قدرتی آفات کی وجہ بن رہے ہیں۔ مگر درختوں کے ساتھ بھی بیگانوں والا سلوک کر کے آفات کو خود دعوت ہی تو دی جا رہی ہے۔ اب اگر احساس ہمارے اپنے اندر نہ ہو تو الگ بات مگر یہ طے ہے کہ جہاں ایک طرف حکومتی نالائقی تو دوسری طرف اس معاملے میں ہماری بے حسی بھی شامل۔ دونوں اطراف جب تک ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے تو بات نہیں بنے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سب سے پہلے سیلاب متاثرین کی بحالی کو وہ پہنچے کہ جن کو ان کے صوبے کی حکمران جماعت طعن و تشنین کے نشتروں پر رکھتی ہے۔ اپنی کارکردگی کے احوال دیکھیں تو پندرہ سال صوبے کے انفرا سٹرکچر اور انسانی ترقی کے لیے بہت مگر آج بھی کے پی کے اکثر ضلعی ہیڈ کوارٹرز پس ماندہ اور بنیادی سہولیات کا فقدان الگ۔ یہ وقت پوائنٹ سکورنگ کا ہے اور نہ تنقید کا مگر ایسے مواقع پر گفتگو ناپ ٹول کر کرنا پی بہتر ہوتا ہے بالخصوص صوبائی ذمہ داران کا کہ ان کے الفاظ آگ نہ اگلیں بلکہ مرہم بنیں۔ کیا ہر بار سیلاب تو کبھی قحط تو کبھی زلزلہ جیسی آفات آفات ایسے رویوں اور اعمال کے ساتھ سہتے رہیں گے یا ترقی یافتہ ممالک کہ جنہوں نے بالخصوص سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم سے کم کرنے کی سعی کی، کے تجربات سے استفادہ۔ ادارے دیانت داری سے مربوط حکمت عملی اپنائیں اور عوامی شعور بیدار ہو تو مستقبل میں ایسے سانحات اور حادثات سے بچنا ناممکن نہیں۔ حالیہ سیلاب میں جو خاندان متاثر ہوئے وہ انسان اور اول و آخر پاکستانی اور بطور پاکستانی ہمیں ان کے درد کو محسوس کرنا ہے تا کہ کل کوئی ہمارا دکھ بھی محسوس کرے۔ کہ احساس کی دولت ہی ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔
حرف آخر ! دور و نزدیک سے جو جو احباب میرے دکھ میں شریک ہوئے، فون کئے، مرحومہ کی مغفرت کی دعائیں کیں، تعزیتی پیغامات ارسال کیے اور حوصلہ افزائی کی، سب کا تہہ دل سے مشکور کہ ان کا کہا گیا ہر لفظ اور دل سے نکلی ہر دعا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہے۔

جواب دیں

Back to top button