کراچی ایک زخمی شہر

کراچی ایک زخمی شہر
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
کراچی، پاکستان کا معاشی دل، جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، آج زبوں حالی اور نا پرسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ شہر، جو ملک کی معیشت کا 65فیصد حصہ پیدا کرتا ہے، ہر بارش کے ساتھ پانی میں ڈوب جاتا ہے، سڑکیں ندیوں میں بدل جاتی ہیں، اور لاکھوں شہریوں کی زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں، بلکہ برسوں کی مسلسل نظراندازی، بدترین گورننس، اور سیاسی تعصب کا شاخسانہ ہے۔ کراچی کے ساتھ سلوک کسی جنگ زدہ علاقے سے کم نہیں۔ کراچی بھی ایک بار پھر بارشوں کی زد میں ہے۔
کراچی کی یہ حالت کوئی اچانک آنے والی آفت نہیں، بلکہ برسوں کی بدانتظامی اور دانستہ نظراندازی کا نتیجہ ہے۔ شہر کا نکاسی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ ہلکی بارش بھی سڑکوں کو تالاب بنا دیتی ہے۔ لیاری اور ملیر ندیوں سے منسلک طوفانی نالوں کا حال یہ ہے کہ وہ کچرے اور سیوریج سے اٹے پڑے ہیں۔ 2020ء میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تین بڑے نالوں سے 30000ٹن کچرا نکالا، لیکن کیا یہ کافی تھا؟ نہیں، کیونکہ نالوں پر تجاوزات اور کچرے کا ڈھیر ہر بارش سے پہلے واپس آ جاتا ہے۔ شہر کے نالوں کی چوڑائی، جو کبھی 20سے 40میٹر تھی، اب کئی جگہوں پر 4سے 10 میٹر رہ گئی ہے۔ لینڈ مافیاز نے نالوں کے کناروں پر کچرا دبا کر زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا، شہر مستقل تباہی کی طرف جا رہا ہے۔
اس سب کے پیچھے ایک بنیادی سوال ہے۔ کراچی کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ یہ شہر، جو پاکستان کی معیشت کا انجن ہے، جو ہر سال اربوں روپے ٹیکس کی صورت میں دیتا ہے، اسے بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ سیاسی تعصب اور بدترین گورننس اس کی اہم وجہ ہے۔ وہ سیاسی قوتیں، جو سندھ پر برسوں سے قابض ہیں، کراچی کو ایک ایسی سوتیلی ماں کی طرح سلوک ، جو اپنے سوتیلے بچے کو نظر انداز کرتی ہی۔ شہر کی بنیادی ضروریات،نکاسی کا نظام، صاف پانی، بجلی، سڑکیں، سب کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ 1958ء کے گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان کے تحت سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن آج 67سال بعد بھی وہ پلانٹ کہیں نظر نہیں آتے۔ نتیجہ؟ غیر پروسس شدہ سیوریج نالوں اور سمندر میں بہہ رہا ہے، جو نہ صرف نکاسی کے نظام کو بند کرتا ہے بلکہ ماحولیاتی تباہی کا باعث بھی بن رہا ہے۔
کراچی کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ اس کی غیر منصوبہ بند شہری کاری ہے۔ تقسیم ہند کے وقت اس شہر کی آبادی 20 لاکھ تھی، جو آج بڑھ کر قریباََ تین کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ آبادی کا دھماکہ کوئی راز نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود شہر کی منصوبہ بندی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز نے نہ صرف شہر کے قدرتی نکاسی کے نظام کو تباہ کیا بلکہ سیلابی میدانوں اور نچلے علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعمیرات کیں۔ کراچی کے شمالی پہاڑی علاقوں میں پانی جمع کرنے والے قدرتی گڑھوں کو ختم کر دیا گیا، جس سے بارش کا پانی بے قابو ہو کر جنوبی نچلے علاقوں میں بہتا ہے اور شہر کو ڈبو دیتا ہے۔ کچرے کا انتظام کراچی کا ایک اور بڑا المیہ ہے۔ شہر روزانہ 14000سے 15000ٹن ٹھوس کچرا پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا مناسب انتظام کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ پلاسٹک کے تھیلے، گھریلو کچرا، اور صنعتی فضلہ نالوں اور سڑکوں پر بکھرا پڑا ہے۔ یہ کچرا نالوں کو بند کرتا ہے، اور جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے بہائو کو روکتا ہے۔ نتیجہ؟ چند گھنٹوں کی بارش شہر کو مفلوج کر دیتی ہے۔ یہ کوئی حادثاتی ناکامی نہیں، بلکہ ایک ایسی پالیسی کا نتیجہ ہے جو کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں نظر انداز کرتی ہے۔
وہ جماعتیں جو سندھ کی سیاست پر قابض ہیں، کراچی کو اپنی سیاسی بساط کا پتھر سمجھتی ہیں، لیکن اس کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ مقامی حکومت کا نظام، جو شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے اہم ہے، برسوں سے غیر فعال ہے۔ اس کی جگہ ایسی انتظامیہ کو ترجیح دی جاتی ہے جو سیاسی وفاداریوں پر چلتی ہے، نہ کہ شہریوں کی بہبود پر۔ نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کے رہائشیوں کی آواز، جو نالوں کے کناروں پر رہتے ہیں اور سیلاب کے نمونوں سے بخوبی واقف ہیں، کو کبھی سنا ہی نہیں جاتا۔
کراچی کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ شہر، جو پاکستان کی معیشت کو چلاتا ہے، جو ہر سال اربوں روپے کے ٹیکس دیتا ہے، آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کراچی کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں؟ کیا اس لیے کہ یہ شہر سیاسی طور پر تقسیم ہے؟ کیا اس لیے کہ یہاں کے رہائشیوں کی آواز کو دبانا آسان ہے؟ یا اس لیے کہ وہ سیاسی قوتیں جو سندھ پر قابض ہیں، کراچی کو اپنی ترجیحات سے ہٹانا زیادہ آسان سمجھتی ہیں؟ یہ سوالات ہر اس کراچی والے کے دل میں ہیں جو اپنے گھر کو پانی میں ڈوبتا دیکھتا ہے، جو اپنے بچوں کو گندے پانی میں چلتا دیکھتا ہے، جو اپنے کاروبار کو تباہ ہوتے دیکھتا ہے۔ کراچی کے رہائشیوں کی یہ خاموش چیخیں اب ایک شور بن چکی ہیں، لیکن کیا کوئی سن رہا ہے؟
اس شہر کی بدحالی کو دور کرنے کے لیے نہ تو کوئی جادوئی چھڑی درکار ہے اور نہ ہی کوئی ناممکن حل۔ ضرورت ہے ایک ایسی سیاسی ارادے کی جو کراچی کو اپنا شہر سمجھے، نہ کہ سیاسی بساط کا ایک پتھر۔ نکاسی کے نظام کو جدید بنانا، نالوں سے تجاوزات ہٹانا، کچرے کے انتظام کو بہتر بنانا، اور شہری منصوبہ بندی کو پائیدار بنانا، یہ سب وہ اقدامات ہیں جو برسوں سے زیر بحث ہیں، لیکن عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں۔ کراچی آج ایک زخمی شہر ہے، جو اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ اس کے رہائشی، جو ہر روز اپنی زندگی کی جنگ لڑتے ہیں، اب تھک چکے ہیں۔ وہ وعدوں سے تنگ آ چکے ہیں، وہ جھوٹ سے عاجز آ چکے ہیں۔ کراچی کو اب وعدوں کی نہیں، عمل کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شہر ڈوب گیا تو پاکستان کی معیشت ڈوب جائے گی۔ اگر کراچی کی روشنیاں بجھ گئیں تو پاکستان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ کراچی کی چیخ اب خاموش نہیں رہ سکتی۔ اب وقت ہے کہ اس شہر کو وہ عزت دی جائے جو اس کا حق ہے، کہ اسے وہ وسائل دئیے جائیں جو اس کی ضرورت ہیں، کہ اسے وہ سیاسی ترجیح دی جائے جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ، یہ شہر، جو کبھی پاکستان کا فخر تھا، تاریخ کے اوراق میں ایک تباہ شدہ داستان بن کر رہ جائے گا۔





