Column

قومی ہیرو راشد منہاس شہید

قومی ہیرو راشد منہاس شہید
کالم نگار: امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
کراچی میں جنم لینے والے راشد کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا۔ ان کے آبائواجداد جموں و کشمیر سے گرداسپور میں آباد ہو گئے تھے۔ تقسیم ہند کے دوران ان کا خاندان گرداسپور سے ہجرت کر کے سیالکوٹ کے قریب آباد ہو گیا۔ راشد کا بچپن لاہور میں بسر ہوا ان کے والد پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر اور MESکے ساتھ وابستہ تھے۔ ان کا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا۔ راشد نے اپنی ابتدائی تعلیم راولپنڈی کی سینٹ مرے اکیڈمی سے حاصل کی۔ انہیں بچپن سے ہی جہاز اُڑانے کا شوق تھا ۔اپنے جیب خرچ کا بڑا حصہ لڑاکا طیاروں کے ماڈل خریدنے پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ان کی سکول ڈائری میں درج ( 7اگست 1965ئ) کی تحریر سے بھی تصدیق ہوتی ہے، جس میں انہوںنے لکھا: ’’ آج میں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کر لیا ہے کہ مسلح افواج کے تین شعبوں میں سے کسی ایک کا حصہ ضرور بنوں گا‘‘۔
راشد منہاس کے والد اسے انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے بیٹے کے عزم کے سامنے اپنی خواہش سے دستبرداری اختیار کر لی۔ راشد منہاس نے Aاور Oلیول کے امتحانات اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیے اور 18برس کی عمر میں پی اے ایف کالج لوئر ٹوپا میں داخل ہو گئے۔ اس زمانے میں ان کا شمار کالج کے بہترین مقررین میں ہونے لگا۔ لوئر ٹوپا میں ابتدائی تربیت مکمل کرنے کے بعد اگست 1969ء میں انہوں نے 51GD (P)کورس پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے طیارہ اڑانے کی ابتدائی اور پرائمری تربیت Havard اور T-37ایئر کرافٹ پر حاصل کی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
14 مارچ 1971ء نوجوان راشد منہاس کی زندگی کا ایک تاریخی اور یادگار دن تھا کیونکہ اس روز ان کے کندھوں پر پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر کے رینکس آویزاں کیے گئے تھے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چند روز گزارنے کے بعد راشد منہاس مسرور پہنچے۔
20 اگست 1971ء کو 11بجے کے قریب پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنےT-33جیٹ ٹرینر پر اپنی دوسری سولو فلائٹ کیلئے تیار تھے۔ انہوں نے طیارے کا انجن سٹارٹ کیا اور تمام آلات کو چیک کیا۔ گرانڈ سٹاف نے انہیں اُڑان بھرنے کا اشارہ دیتے ہوئے سلیوٹ کیا کون جانتا تھا کہ یہ بہادر جنگجو کو ملنے والی آخری سلامی تھی۔ راشد منہاس نے اپنے طیارہ ابھی رن وے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ ان کا بنگالی فلائٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمٰن نے ٹیکسی وے پر آ کر انہیں رُکنے ّّکا اشارہ کیا۔ راشد منہاس نے کسی انسٹرکشن کے خیال سے طیارہ روک دیا۔ مطیع الرحمن انسٹرکٹر اچانک اچھل کر سیٹ پر آن بیٹھا۔ طیارے نے اُڑان بھری اور اس کا رُخ بھارت کی جانب ہو گیا۔ ا س کے تھوڑی دیر کے بعد راشد منہاس نے مسرور کنٹرول ٹاور کو آگاہ کیا کہ ان کے جہاز کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ ایئر کنٹرولر نے درخواست کی کہ وہ اپنا پیغام دہرا کر اس بات کی تصدیق کریں کہ واقعی ان کے جہاز کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو واقعات پیش آئے وہ نوجوان پائلٹ آفیسر کی شجاعت و بہادری اور حب الوطنی کی ایک بے مثال داستان سناتے ہیں۔ دوران پرواز راشد منہاس نے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے غدارِ وطن مطیع الرحمن کو بزور بازو روکنا شروع کر دیا۔ مطیع الرحمٰن طیارے کو بھارت لے جانا چاہتا تھا ۔ دونوں دست بدست ایک دوسرے سے طیارے کا مکنیکل کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے۔ طیارے کے اندر دونوں کے درمیان زور آزمائی جاری تھی اور طیارہ بھارت کے قریب پہنچ چکا تھا، وطن عزیز پر جان نثار کر دینے کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ نوجوان جنگجو جانتا تھا کہ اس کے وطن کی حرمت اس کی اپنی جان سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ بھارتی سرحد سے تقریباً 32میل دور پائلٹ آفیسر راشد منہاس نے اپنے طیارے کا رُخ زمین کی جانب کر دیا اور یوں ٹھٹھہ کے قریب ان کا طیارہ زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ راشد منہاس نے حرمت وطن کی حفاظت می ںشہادت پا کر ہیرو کے درجے پر فائز ہو گئے راشد منہاس کو اس جر أت مندانہ فیصلے پربعد از شہادت مسلح افواج کے سب سے بڑے ایوارڈ نشان حیدر سے نوازا گیا۔ وہ پاک فضائیہ کی جانب سے نشان حیدر پانے والے واحد اور پاکستان کے کم عمر ترین ہیرو ہیں۔
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ نشانِ حیدر اب تک گیارہ جوانوں کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر کرار تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لیے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔ ان میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40سال سے بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے اپنی تربیت میں 20سال 6ماہ کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔
راشد منہاس نے اپنی جان قربان کر کے طیارے کو دشمن کے ہاتھ میں جانے سے بچا لیا۔ ان کی اس بہادری پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا، جو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔
راشد منہاس کی قربانی کو پوری قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔ وہ ایک بہادر اور محب وطن سپاہی تھے جنہوں نے اپنی جان وطن پر قربان کی۔
ان کی یاد میں اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کراچی میں ایک مرکزی شاہراہ کو بھی ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
راشد منہاس کو ہمیشہ ایک قومی ہیرو کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کی بہادری اور قربانی نوجوان نسل کے لیے ایک مثال ہے۔
راشد منہاس کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں اپنے ملک اور قوم کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ مٹی کے اس بہادر سپوت نے اپنی جان مادر وطن پر قربان کر دی لیکن ملکی وقار پر آنچ تک نہیں آنے دی۔ راشد منہاس شہید ہماری آنے والی نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ ہیں اور انکو شجاعت و قربانی کی علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اپنے بیٹے کی شہادت پر راشد منہاس کے والد عبدالماجد منہاس نے یہ کہا ’’ اگرچہ بیٹے کی وفات کا دکھ کبھی ختم نہ ہونے والا ہے مگر مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ایک نیک مقصد اور ملک و قوم کے وقار کے لیے اپنی جان قربان کی‘‘۔
اٹھائیس اگست 1971ء کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں عبدالماجد منہاس نے کہا تھا کہ ان کا بیٹا شروع سے ہی ایسے کیرئیر میں دلچسپی رکھتا تھا جس کے ذریعے وہ ملک و قوم کی خدمت اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کر سکے۔
راشد منہاس زمانہ طالب علمی میں جنگوں پر لکھی جانے والی کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے تھے اور ان کے اہم اقوال اپنی ڈائری پر نقل کر لیتے تھے۔
راشد منہاس کی ڈائری پر درج اقوال میں سے ایک میں کہا گیا تھا ’’ ایک شخص کے لیے سب سے بڑا اعزاز اپنے ملک کے لیے قربان کر دینا اور قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button